جب بھی موقع ملا جنرل باجوہ نے مجھے قائل کرنے کی بھی کوشش کی کہ میں عمران خان کے ساتھ تعاون کروں لیکن افسوس کہ ۔ ۔ ۔سلیم صافی بھی خاموش نہ رہ سکے

اسلام آباد(پی این آئی)معروف صحافی سلیم صافی اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ شاید ابوالکلام آزاد نے پہلی مرتبہ اس حقیقت کو الفاظ کا جامہ پہنایا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ 2010میں پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کا جو آغاز ہوا تھا ،وہ جنرل راحیل شریف کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل(ر) ظہیر الاسلام کے ہاتھوں انتہا تک پہنچا اور دھرنے کے کنٹینر سے فتووں اور گالم گلوچ کا عمل دیکھا تو میں نے مذکورہ فقرے کے ساتھ اس فقرے کا اضافہ شروع کردیا کہ اب سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں رہی ۔

جنرل باجوہ کے دور میں ایجنسیوں کے ذریعے مخالفین کو رگڑا دے کر عمران خان کو وزیراعظم مقرر کیا گیا تو وہ اور ان کے وزرا آپے سے باہر ہوکر دوسروں کی عزتوں کے درپے ہوگئے تو مجھے کہنا پڑا کہ پاکستانی سیاست بنیادی انسانی اخلاقیات سے بھی محروم ہوگئی لیکن اب اپنے محسن اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے فورا ًبعد جس طرح عمران خان نے ان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی تو مجھ جیسا انسان بھی دم بخود رہ گیا۔

میں اس محسن کشی کو کوئی نام دے سکتا ہوں اور نہ اپنا تاثر الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں جبکہ دوسری جانب جنرل باجوہ نے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے اور پھر ان کی حکومت کو چلانے کیلئے جو کچھ کیا، اس کا بھی الفاظ میں احاطہ نہیں کرسکتا۔جب بھی موقع ملا جنرل باجوہ نےمجھے قائل کرنے کی بھی کوشش کی کہ میں عمران خان کے ساتھ تعاون کروں(انکی ٹیم کے بعض لوگوں نے بدترین انتقام کا نشانہ بھی بنایا) لیکن افسوس کہ اپنی احسان فراموشی اور ابن الوقتی سے عمران خان نے آج جنرل باجوہ کو ہم جیسے نقادوں کے سامنے بھی شرمندہ کر دیا ۔

خلوتوں کے باتیں تو امانت ہیں اور امانت ہی رہیں گی لیکن جلوت کے ایک واقعے کا ذکر اب چل پڑا ہے تو تفصیل بیان کرنے چلا ہوں۔2018کے الیکشن (جو بعد میں سلیکشن بن گیا) سے چند روز قبل مجھے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایک اسٹاف ممبر کی کال آئی کہ شام کو چیف صاحب نے گھر پر گپ شپ کیلئے بلایا ہے۔ شام کو میں آرمی ہائوس پہنچا تو دیکھا کہ حامد میر صاحب پہلے سے وہاں بیٹھے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد ارشاد بھٹی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ سیاست اور انتخابات پر بات ہونے لگی تو میں نے ان کے سامنے آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کی سیاست میں مداخلت کی شکایت کی۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ نواز شریف سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں لیکن وہ میری فوج کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ وہ اور ان کے پولیٹکل منیجر ہر قیمت پر عمران خان کو وزیراعظم بنوانے پر مصر ہیں تو میں نے ان سے عرض کیا کہ سر: اگر زیادہ مجبوری ہے تو زرداری صاحب کو وزیراعظم بنوا دیں لیکن عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کی غلطی نہ کریں ۔

اس پر جنرل صاحب نے مجھ سے کہا کہ صافی صاحب! آپ اچھے بھلے صحافی ہو لیکن جب عمران خان کا ذکر آتا ہے تو بغض عمران میں بالکل پاگل ہوجاتے ہیں ۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ سر میں پاگل ہوں یا نہیں لیکن معاف کیجئے آپ لوگ بھی عمران کی محبت میں حد سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس پر ہماری گفتگو میں تلخی مزید بڑھ گئی۔ جنرل صاحب کے غصہ کی وجہ یہ تھی کہ وہ صدق دل سے عمران خان کو مسیحا سمجھ رہے تھے جبکہ میں صدق دل سے انہیں پاکستان کیلئے مصیبت سمجھ رہا تھا۔

ڈھائی گھنٹے کی اس مغز کھپائی کے دوران مجھے یقین ہوگیا کہ کچھ بھی ہوجائے جنرل صاحب کو میں قائل نہیں کرسکتا اور وہ بھی جان گئے کہ یہ شخص بھی عمران کے بارے میں رائے تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ میں نے عرض کیا سر !کبھی پاکستان چھوڑنے کا نہیں سوچا لیکن اگر آپ مجبور کریں گے تو میں پاکستان چھوڑ دوں گا لیکن اپنے ضمیر کے خلاف عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کی اس گیم کا حصہ نہیں بن سکتا۔

بہر حال یہ بھی ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں۔ میں تو آپ کے ساتھ صرف ڈسکشن کررہا تھا۔ آپ پر کوئی جبر نہیں ۔ میری طرف سے آپ کو اجازت ہے کہ جس کو چاہیں سپورٹ کریں (اگرچہ بعد میں ان کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے میرا جینا حرام کئے رکھا)۔ اجازت لینے کا وقت آیا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ جنرل صاحب ! اب جب آپ لوگوں نے فیصلہ کرہی لیا ہے اور جس طریقے سے آپ کی آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر متحرک ہیں تو صرف سلیم صافی کیا اگر پورا میڈیا بھی چاہے تو عمران خان کے وزیراعظم بننے کا راستہ نہیں روک سکتا لیکن میں چند باتوں کو ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں تاکہ میری حد تک فرض پورا ہوجائے ۔

پہلی بات یہ کہ عمران خان آپ سے نواز شریف اور زرداری کو بخشوا دے گا کیونکہ ان کی سوچ ذات سے شروع ہوتی اور ذات پر ختم ہوتی ہے جبکہ وہ ہر کسی کو معاف کرتے ہیں لیکن اپنے محسنوں کو معاف نہیں کرتے۔دوسری بات یہ کہ آپ لاکھ مدد کریں یہ شخص چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ نہیں چل سکے گا اورتیسری بات یہ کہ اس وقت پختون تحفظ موومنٹ اور بلوچ قوم پرستوں سے پریشان ہیں لیکن اگر فوج اسی طرح عمران خان کیلئے مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں کو ٹھکانے لگاتی رہی تو اس کے نتیجے میں پنجاب میں بھی پی ٹی ایم بن جائے گی ۔

یہ تین باتیں گوش گزار کرنے کے بعد ہم تینوں جنرل صاحب سے اجازت لےکر رخصت ہوگئے۔عمران خان وزیراعظم مقرر (appoint) کرلئے گئے۔ ان کی حکومت بنوانے کے بعد اسے چلوانے کیلئے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ سے جو کچھ ہوسکتا تھا، انہوں نے کر ڈالا لیکن بدقسمتی سے میری سب پیشں گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ جنرل قمرجاوید باجوہ کی قیادت میں فوج اور آئی ایس آئی کے بھرپور ساتھ کے باوجود عمران خان کی حکومت فوج اور ملک کیلئے مصیبت بن گئی۔ آج جب جنرل قمرجاوید باجوہ ریٹائرڈ ہوگئے تو عمران خان میرجعفر اور میرصادق کے القابات عنائت کرنے کے بعد اب ان کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے میرے ساتھ ڈبل گیم کی۔ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔کاش میری پیش گوئیاں غلط ثابت ہوتیں، جنرل صاحب اور پاکستان کو عمران خان کے ہاتھوں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کیونکہ جنرل صاحب جیسے بھی ہیں ہماری فوج کے سربراہ رہے اور دیس تو آخر اپنا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں