لاہور(آئی این پی) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ عدلیہ شدید دبائو میں ہے اور ججز کے پاس نامعلوم نمبروں سے کالز آرہی ہیں،اسٹیبلشمنٹ کے بغیر بننے والی حکومت ہی ملک کو مسائل سے نکال سکتی ہے، اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ، غلامی سے بہتر موت کو قبول کروں گا اور آزادی کے لیے جان تک قربان کردوں گا، عوام کو بھی اب کھڑا ہونا پڑے گا کیونکہ اگر ہم جبر کے آگے خاموش ہوگئے تو آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی،
آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کے دوران آنے والی موت عظیم ہے، ہمیں اب کھڑے ہونا ہوگا اور حقیقی آزادی پر ڈٹ جانا ہوگا،جرائم روکنے والے اداروں کو پی ٹی آئی ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے ،بات چیت کرنے کو تیار ہوں مگر مجھے یہ سمجھا دیں کہ میرے بعد کیا ہوگا؟ یہ ایک پارٹی بنا کر ووٹر کو تقسیم کریں گے اور اس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو شامل کریں گے، یہ مخلوط حکومت قائم کریں گے ، مسلم لیگ ن کو تو عوام ووٹ ہی نہیں دیں گے،پارٹی چھوڑنے والوں میں سے بہت سے اب نئی کنگز پارٹی بنانے کیلیے لابنگ کر رہے ہیں۔ چھپنے والوں کے گھروں پر حملہ کیا جا رہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔منگل کو عمران خان نے قوم سے ویڈیو خطاب میں کہا کہ ججز کو فون کر کے دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ تمھاری فائلیں ہمارے پاس پڑی ہیں اگر حکم نہ مانا تو کھول دی جائیں گی مگر مجھے عدلیہ سے امید ہے کہ وہ ہی ملک میں قانون کی بالادستی قائم کرے گی۔عمران خان نے کہا کہ ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور وہ سب کچھ بھول کر اب پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات دیکھ رہے ہیں، پولیس بھی اس رویے اور گرفتاریوں پر خوش نہیں ہے جبکہ ایماندار سرکاری افسران بھی اس رویے پر ناخوش ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ گھر مسمار، کاروبار بند کرنے اور بچوں کو دھمکیوں جیسے سارے مظالم کے باوجود ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، میں نے کہہ دیا ہے کہ اگر دبائو زیادہ ہے تو چھوڑ دو مگر امیدوار کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو خیرباد کہا تو عوام ہمیں تسلیم نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں کبھی ایسا سیاسی دبا ئونہیں ڈالا گیا، سارے ادارے مل کر یہ کام کررہے ہیں اور ان دانستہ اقدامات کی وجہ سے اداروں کو تباہ کیا جارہا ہے جبکہ جرائم روکنے والے اداروں کو پی ٹی آئی ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔عمران خان نے کہا کہ میں بات چیت کرنے کو تیار ہوں مگر مجھے یہ سمجھا دیں کہ میرے بعد کیا ہوگا؟ یہ ایک پارٹی بنا کر ووٹر کو تقسیم کریں گے اور اس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو شامل کریں گے، یہ مخلوط حکومت قائم کریں گے اور مسلم لیگ ن کو تو عوام ووٹ ہی نہیں دیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ مخلوط حکومت ملکی مسائل کا حل نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے بغیر عوام کی حمایت سے بننے والی حکومت ہی ملک کو مسائل سے نکال سکتی ہے کیونکہ پاکستان کو بڑے فیصلوں سے بچایا جاسکتا ہے۔عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اب تیسری بار بھی مجھ پر حملہ کریں گے، میرے سیکیورٹی آفیسر کرنل عاصم کو بھی انہوں نے اٹھا لیا ہے اور وہ چار روز سے لاپتہ ہے، عوام گھبرائیں نہیں کیونکہ آپ سے زیادہ خطرہ مجھے ہے مگر میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور غلامی سے بہتر موت کو قبول کروں گا اور آزادی کے لیے جان تک قربان کردوں گا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ عوام کو بھی اب کھڑا ہونا پڑے گا کیونکہ اگر ہم جبر کے آگے خاموش ہوگئے تو آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی، آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کے دوران آنے والی موت عظیم ہے، ہمیں اب کھڑے ہونا ہوگا اور حقیقی آزادی پر ڈٹ جانا ہوگا۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سابق وزیراعظم نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے پارٹی رہنماں سمیت کئی افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے سینیٹر اعجاز چودھری، سابق صوبائی وزیر محمود الرشید کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس وقت ساری قیادت یا تو جیل میں ہے یا لوگ روپوش ہے، حکمران ٹکٹ ہولڈرز کے پیچھے پڑے ہیں کسی طرح انہیں پی ٹی آئی سے الگ کر دیں جبکہ ان میں بہت سے الگ ہو چکے ہیں۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی چھوڑنے والوں میں سے بہت سے اب نئی کنگز پارٹی بنانے کیلیے لابنگ کر رہے ہیں۔ نئی پارٹی کا نیا ڈرامہ گھڑا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کو اس جانب لے جانے کے لیے کھیل جاری ہے، چھپنے والوں کے گھروں پر حملہ کیا جا رہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔عمران خان نے کہا کہ پارٹی رہنماں کو صرف اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔خواتین کو اٹھانے کی مبینہ دھمکیوں پر ردعمل پر دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئر مین نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کارکنوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں ان کے گھر کی خواتین کو اٹھالیا جائے گا۔ وہ اس حد تک پستی میں گر گئے ہیں، وہ پاکستان کی سیاست کو اس سطح لے آئے ہیں جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ حکام زیر حراست خواتین کو رہا کرنے سے خوفزدہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ خواتین میں سے کوئی بھی آتش زنی کی کارروائیوں میں ملوث نہیں تھی۔ شاید ہی 100 سے 150 لوگ فساد میں ملوث ہوں گے، باقی زیر حراست لوگ پرامن احتجاج کر رہے تھے۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں