لاہور(پی این آئی) سینئر قانون دان اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن غیر آئینی ہے، چیف جسٹس کی رضامندی کے بغیر جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا جا سکتا، حیران ہوں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کیوں اتنی اجلت میں کمیشن کی سربراہی قبول کی۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کو شامل کرکے کمیشن بنانا حکومت کا کام نہیں، اس کمیشن کے ٹی آراوز چیف جسٹس کے گرد منڈلاتے ہیں، نجی گفتگو کی آڈیو خود ہی غیرقانونی ہے، بے نظیر بھٹو کیس میں طے ہوا تھا کہ کال ریکارڈ کرنا جرم ہے، کال رکارڈ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ حکومت اور کابینہ جاسکتی ہے۔ حکومت چیف جسٹس کی رضا مندی کے بغیر جج کو کمیشن کا سربراہ کیسے بنا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ پتا لگانا ضروری ہے کہ فون کالز کون رکارڈ کرتا ہے؟ ٹی اوآرز میں فون ریکارڈ کرنے والے سے متعلق کچھ بھی شامل نہیں۔ دوسری جانب نیوزایجنسی کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت ججز سے متعلقہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم 3 رکنی جوڈیشل انکوائری کمیشن کا اجلاس پیر کو یہاں سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 7 میں منعقد ہوا۔ کمیشن میں سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق شامل ہیں۔ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کمیشن میں پیش ہوئے۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016ء کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ آڈیو لیکس کے حوالہ سے قائم جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیا جائے گا۔ کمیشن کی کارروائی سپریم کورٹ اسلام آباد کی بلڈنگ میں ہو گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جن افراد سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کرنی ہے ان میں دو معمر خواتین بھی شامل ہیں اور اگر درخواست آئی تو کمیشن کارروائی کیلئے لاہور بھی جا سکتا ہے۔ کمیشن نے اٹارنی جنرل کو انکوائری کمیشن کیلئے آج ہی موبائل فون اور سم فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ جوڈیشل کمیشن کیلئے فراہم کردہ فون نمبر پبلک کیا جائے گا۔ جوڈیشل کمیشن نے وفاقی حکومت کو ای میل ایڈریس بھی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے جبکہ کمیشن بذریعہ اشتہار عوام سے بھی معلومات فراہم کرنے کا کہے گا۔
کمیشن نے مزید کہا کہ معلومات فراہم کرنے والے کیلئے اپنی شناخت ظاہر کرنا لازم ہو گا۔ انکوائری کمیشن نے کہا کہ نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات قابل قبول نہیں ہوں گی۔ انکوائری کمیشن نے حکومت سے تمام مبینہ آڈیوز کی ریکارڈنگ طلب کرتے ہوئے تمام آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ بھی ذمہ دار افسر کے دستخط کے ساتھ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مزید کہا گیا کہ اگر فراہم کردہ ٹرانسکرپٹ میں غلطی ہوئی تو متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی ہو گی۔ کمیشن نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ تمام مواد بدھ تک فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ کمیشن نے کہا ہے کہ جن افراد کی مبینہ آڈیوز ہیں ان کے نام، عہدے اور رابطہ نمبر بھی فراہم کئے جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انکوائری کمیشن کا دائرہ اختیار کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ انکوائری کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہے۔ انکوائری کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا۔ کمیشن صرف حقائق کے تعین کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں عزت کی توقع بھی کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کو اختیار ہے کہ تعاون نہ کرنے والوں کے سمن جاری کر سکے۔ کمیشن صرف نوٹس جاری کرے گا، کوشش ہو گی کسی کے سمن جاری نہ ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی افسران کے پاس پہلے ہی انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ عوام سے معلومات کی فراہمی کیلئے اشتہار جاری کیا جائے گا۔ بعد ازاں کمیشن کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں