اسلام آباد(پی این آئی)سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید پھر سے متحرک ہوگئے ہیں اور اداروں میں کی گئی انوسٹمنٹ کو کیش کروا رہے ہیں ، سینئر صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے انکشاف کر دیا ہے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے انکشاف کیا کہ پرانا نظام چلانے والے جنرل (ر) فیض حمید پھر سے متحرک ہیں اور اداروں میں کی جانے والی انوسٹمنٹ کو کیش کروا رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں عدلیہ کلیدی کردار ہے۔ موجودہ سیاسی تنازع کا آٖغاز پنجاب اسمبلی کے ووٹوں سے ہوا کہ کس کا ووٹ کاؤنٹ ہو گا اور کس کا نہیں؟ اس کیس پر نئی تشریحات پیش کی گئیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آئینی بحران کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے اندر خود بھی بحران ہے۔ عدلیہ کے اندر اس بحران وجہ سیاست، اسٹیبلشمنٹ اور خود عدلیہ بھی ہے۔
عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تقرار بھی ملک اور عدلیہ کے اندر بحران کی ایک وجہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ سال پہلے ہمارے اگلے بننے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا گیا۔ ان کی جاسوسی کی گئی ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ ان کو اور ان کے ہم خیال ایک ساتھ جج کو تنگ کر کے ان کو عمران خان کے خلاف کیسوں کو آگے بڑھانے سے روک کر سائیڈ پر کر دیا گیا۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ عدالت کے اندر بیٹھے لوگ ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنا کر بیٹھے ہیں اور یہ سلسلہ جسٹس ثاقب نثار کی پوسٹ سے چلتا آ رہا ہے۔ ہر کورٹ میں چیف جسٹس کے نیچے بیٹھنے والا جج کورٹ چلا رہا ہے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں یہ خیال غلط ہے کہ وہ کورٹ چلاتے تھے بلکہ ان کے نیچے بیٹھے عظمت صاحب تمام معاملات دیکھا کرتے تھے اسی طرح کھوسہ کے نیچے بیٹھے ایک اور سینئر جج کورٹ چلاتے تھے۔
اس زہر کو ختم کرنے کئے بغیر نظام درست نہیں ہو گا۔ جب غلام محمود ڈوگر کے خلاف سٹیٹمنٹ کا کیس چل رہا تھاجسے انتخاب کی مدت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ پھر دو ججوں نے استدعا کی جنہیں اسی بینچ کا حصہ بنا دیا گیا کہ اپنی درخواست پر خود ہی غور و فکر کریں۔ اگر اس طرح معاملات چلائیں گے تو آگے سے جواب بھی آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف گاؤن پہن کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جانے سے عزت نہیں کمائی جاتی۔اگر ایسی بات ہوتی تو ثاقب نثار کے نام کے ڈنکے بج رہے ہوتے ، کھوسہ صاحب منہ چھپاتے نہ پھر رہے ہوتے اور عظمت صاحب بھی چھپتے نہ پھر رہے ہوتے۔ ضروری یہ ہے کہ آپکی عادات کیا ہیں۔ آپ کے کام کیا ہیں، آپ نے فیصلے کیا کیے ہیں اور سیاسی معاملات میں کردار کیسا رہا ہے۔ اب تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ حلقے کاامیدوار کون ہے اور جج کون ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقت پر انتخابات کروانے کا سوموٹو نوٹس کا مقدر بھی کوئی تابناق نظر نہیں آتا۔ 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کے اندر بھی ایک اور حد ہے۔
انتخابات کی تاریخ دینے اور انتخابات کروانے کے درمیان 44 دن کا وقفہ ہونا لازم ہیں۔ اگر 44 دن کا وقفہ نہیں ہے تو انتخابات بے معنی ہو جاتے ہیں جبکہ 90 دن کے اندر الیکشن کروانے کے لیے بہت سارے انتظامات کروانے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس (ر) شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ اگر چیف الیکشن کمشنر 90 دن کے اندر الیکشن نہیں کرواتا تو عدالت اسے الٹا لٹکا سکتی ہے۔جتنی طاقت سپریم کورٹ کی ہے اس سے زیادہ طاقت چیف الیکشن کمشنر کی ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے الیکشن کروانہ تو وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔ وہ فوج اور رینجرز کو کہے کہ سکیورٹی دے اور اسحاق ڈار سے فنانس لے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں