لاہور(آئی این پی)سابق وزیر اعظم عمران خان حفاظتی ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ پیش ہو گئے جس کے بعد عدالت نے ان کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ان کی رہائش زمان پارک کے گیٹ نمبر ون سے ہائیکورٹ لے جانے کیلئے راستہ کلئیر کروایا گیا، اس دوران کارکنوں نے حصار بنا کر انہیں روانہ کیا، کینال روڈ پر تمام ٹریفک کو روک کر عمران خان کیلئے راستہ بنایا گیا۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی روانگی کے موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے راستے پر سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے، کارکنوں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے عمران خان مقررہ وقت پر عدالت نہ پہنچ سکے، تاخیر سے عدالت پہنچ کر انہوں نے اپنی حاضری لگوائی۔ روسٹرم میں آ کر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 28 فروری کو میری ٹانگ کا ایکسرے ہونا ہے مجھے مزید 2ہفتے چاہئیں، مجھے اگر ذرا سا بھی جھٹکا لگ گیا تو 3ماہ ریکوری میں لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک گاڑی میں بیٹھا رہا تا کہ راستہ کلیئر ہونے پر عدالت کے روبرو پیش ہوسکوں، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ہماری پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے۔حاضری سے قبل جسٹس علی باقر نجفی کے عدالتی عملہ نے عمران خان کے وکیل کو فاضل جج کی ہدایات پہنچائیں، عدالت میں ان کی درخواست پر سماعت کیلئے مزید 40 منٹ تک انتظار کیا گیا۔کیس کی سماعت شروع ہونے پر جج جسٹس علی باقر سے استفسار کیا کہ عمران خان احاطہ عدالت میں ہیں تو پیش کیوں نہیں ہو رہے؟ انہیں پیش ہونا ہو گا۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ آدھے گھنٹے سے جسٹس ملک شہزاد کی عدالت کے باہر گاڑی میں ہیں، پولیس تعاون نہیں کررہی،ہمیں زمان پارک سے یہاں آنے تک اڑھائی گھنٹے لگے۔وکلا نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی نے وعدہ کیا عمران خان کو 10 منٹ میں ہائیکورٹ پہنچا دیں گے،لیکن افسوس سے کہنا چاہتا ہوں اس پر عمل نہیں ہوا،عدالتی تقدس کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔اس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کو پانچ بجے تک پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے پیشی کے لیے آخری موقع دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا اگر عمران خان کو پیش نہ کیا تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کر یں گے۔لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کیس کی سماعت ہوئی۔ وکیل نے عدالے میں موقف اپنایا کہ مال روڈ پر ٹریفک بہت زیادہ جام ہے۔آئی جی پنجاب ایک گھنٹہ دے دیں ہم مال روڈ کلیئر کر دیں گے۔
انہوں نے عدالت میں بتایا کہ عمران خان اپنی حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ جسٹس طارق سلیم سے استفسار کیا کہ عمران خان کی درخواست کس نے کس کے کہنے ہر فائل کی؟وکیل نے بتایا کہ عمران خان کے دستخطوں سے یہ درخواست فائل نہیں ہوئی۔ میں نے کوئی درخواست فائل نہیں کی۔ وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہامیں عدالت سے حفاظتی ضمانت مانگ ہی نہیں رہا۔عمران خان کی درخواست ضمانت پر دستخط جعلی ہے۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا آپ کو چاہیے تھا معافی مانگتے۔اب میں شوکاز نوٹس جاری کروں گا۔ آپ تسلی سے جواب تیار کیجیے گا۔وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت اگر کل تک کا وقت دے تو عمران خان پیش ہوجائیں گے۔رجسٹرار نے گاڑی مسجد گیٹ سے داخل ہونے کی درخواست بھی مسترد کی۔ہمیں کہا گیا تھا کہ مال روڈ ٹریفک کے لیے فری ہوگا۔وکیل نے کہا کہ ہم نے سیکیورٹی کے معاملے پر پولیس حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔عدالت نے حکم دیا تھا کہ عمران خان کی پیشی پر سیکیورٹی انتظامات کیے جائیں۔میں عمران خان کو کل ہی پیش کر دوں گا۔وکیل نے عدالت میں کہا کہ ہم آنا چاہتے ہیں لیکن آنے نہیں دیا جا رہا۔آپ کسی کو بھی ساتھ بھیج دیں بیشک چیک کرلیں۔آپ 4یا5 بجے کیلیے رکھ دیں ہم ابھی پیش کر دیتے ہیں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان لیڈر اور رول ماڈل ہیں ۔ہم نے آپکو بار بار موقع دیا۔جس طرح آپکو سہولت دی ایسی کسی نے نہیں دی ہوگی۔وکیل نے عدالت میں عمران خان کو پانچ بجے تک پیش کرنے کی یقین دہانی کرادی۔لاہورہائیکورٹ نے عمران خان کو 5بجے تک پیش کرنے کی مہلت دے دی۔ کہا اگر عمران خان کو پیش نہ کیا تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کر یں گے۔اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی گاڑی کو عدالت کے احاطے میں آنے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ نے بطور انتظامی جج فیصلہ سنایا۔عمران خان کے وکلا نے گاڑی کو احاطہ عدالت میں لانے کے لیے رجوع کیا تھا۔رہنما پی ٹی آئی اسد عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کبھی کسی عدالت میں پیشی سے منع نہیں کیا۔سیکیورٹی معاملات اور ڈاکٹر کی ہدایات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ ایڈمن سے عمران خان کی گاڑی کوعدالتی احاطے میں لیجانے کی اجازت مانگی تھی۔عمران خان پرپہلے قاتلانہ حملہ ہوچکا ان پر دوبارہ حملے کا خطرہ موجود ہے۔ڈاکٹرز نیٹانگ کی ہڈی فریکچر ریکوری کیلیے دھکم پیل سے احتیاط کی ہدایات دی ہے۔واضح رہے کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے باہر مظاہرہ کرنے اور رکن قومی اسمبلی پر حملے کے کیس میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔عدالت نے حلف نامے اور وکالت نامے پر عمران خان کے مختلف دستخط کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں طلب کیا ہے۔عدالت نے عمران خان کو طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں آ کر حلف پر دستخط کی وضاحت کرنا ہوگی، عدالت نے پیش نہ ہونے پر توہین عدالت کا عندیہ دیا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں