اسلام آباد (پی این آئی)کچھ لوگ جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کی طرف سے مدت ملازمت میں مزید توسیع کا پیغام لیکر لندن گئے تھے، انہوں نے نوازشریف کو قائل کر نے کی پر زور کوشش کی کہ باجوہ کو چند ماہ کی مزید توسیع دے دی جائے لیکن نوازشریف نے کہاکہ ایسا ممکن نہیں، مارشل لاء لگتا ہے تو لگے، حکومت جاتی ہے تو جائے، نئے مقدمات بنتے ہیں تو بنیں، ایکسٹینشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ دعویٰ مسلم لیگی رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک انٹرویومیں کیا ۔انہوں نے کہاکہ جب وہ اکتوبر 2022ءمیں لندن گئے تو ان کی نوازشریف اور مریم نواز سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں، ان کی توقع کے برعکس ان ملاقاتوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری سے کہیں زیادہ قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں مزید توسیع کا معاملہ زیر بحث رہتاتھا۔ پیغام لانے والوں کو میاں صاحب نے کہاکہ اچھا ہوگا باجوہ صاحب خود اپنی زبان سے ریٹائرمنٹ کا واضح اعلان کر دیں یہ پیغام ملنے کے 2یا 3 دن بعدقمر جاویدباجوہ نے ڈیفنس یونیورسٹی کی تقریب میں دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ وہ مقرر ہ تاریخ 29نومبر کو گھر چلے جائیں گے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایاکہ جنرل راحیل شریف جنوری 2016ء میں ریٹائرمنٹ کا واضح اعلان کر نے کے بعد بھی توسیع کیلئے بہت سرگرم رہے۔
ایک سوال کے جواب میں لیگی سینیٹر نے بتایاکہ نواز شریف کو ہٹانا اور عمران کو لانا ایک ادارہ جاتی منصوبہ تھا جو 2011ءمیں شروع ہوا۔ جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام اور بعد میں آنے والوں نے بھی اس منصوبے کو آگے بڑھایا۔عرفان صدیقی نے بتایا کہ ایکسٹینشن دراصل ایک متوازی منصوبہ تھا جو بڑے ادارہ جاتی منصوبے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں