اسلام آباد (پی این آئی) دیر نہ ہو جائے اس لئے ایک اور کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت اور عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق ایک باخبر ذریعے نے کہا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں فریقوں کو ایک جگہ بٹھا کر مذاکرات کرائے جائیں اور ان کے سیاسی تنازعات
مناسب انداز سے طے کرائے جائیں تاکہ ملک کو مزید کسی سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پی ٹی آئی کے ذریعے نے تصدیق کی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان رابطہ دوبارہ قائم ہوا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی بات کہنا قبل از وقت ہوگی۔ پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری سے جب اس پیشرفت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ غیر واضح وجوہات کی بناء پر عمران خان نے پیر کو اپنے لانگ مارچ کو مزید دو روز کیلئے ملتوی کر دیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے کیے جانے والے اعلان کے مطابق، لانگ مارچ اب وزیر آباد سے جمعرات کے دن دوبارہ شروع ہوگا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تاخیر کی وجہ حکومت اور عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کے درمیان پس پردہ ہونے والا کوئی رابطہ ہے۔ اگرچہ عمران خان چاہتے ہیں کہ جلد انتخابات کے حوالے سے ان کا مطالبہ جلد از جلد پورا کیا جائے لیکن مذاکراتی عمل کی راہ میں انہیں ہی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین مستقل ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ان کا جلد انتخابات کا مطالبہ پورا کیا جائے اور موجودہ اتحادی حکومت کو ہٹایا جائے۔ حال ہی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ان کی تنقید بہت ہی خطرناک ہوگئی اور اس بات کو عمران خان کی چال سمجھا جا رہا ہے کہ ادارے پر دباؤ ڈال کر اس سے جلد الیکشن کا مطالبہ پورا کرایا جائے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ متعدد مرتبہ دہرا چکی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی اور غیر سیاسی رہے گی۔ زیادہ سے زیادہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع حالیہ مہینوں میں صرف اتنا کہتے نظر آئے ہیں کہ وہ ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان ذرائع کا اصرار ہے کہ سیاسی فیصلے سیاسی کھلاڑی خود کریں۔ اگر عمران خان جلد الیکشن چاہتے ہیں تو پی ٹی آئی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے۔
پہلے بھی دونوں فریقوں کے درمیان کچھ رابطے ہو چکے ہیں لیکن یہ غیر فیصلہ کن ثابت ہوئے تھے۔ عمران خان جلد الیکشن چاہتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت کا اصرار ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل کرے گی اور آئندہ الیکشن اگلے سال اکتوبر اور نومبر کے دوران ہی ممکن ہیں۔ سیاسی مخالفین سے بات نہ کرنے کے برسوں پرانے عمران خان کے رویے کی وجہ سے ہی پی ڈی ایم کے سینئر رہنما (نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان) بھی غیر لچک دار رویہ اختیار کر چکے ہیں۔
اب تو یہ رہنما بھی عمران خان سے بات چیت کے امکان کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف لچکدار انسان ہیں اور انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ملک کے مفاد کیلئے وہ عمران خان سے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ عمران خان نے ان سے بات چیت کیلئے رابطہ کیا تھا۔ تاہم، عمران خان نے کہا کہ وہ ایسے وزیراعظم سے بات کیوں کریں گے جس کے پاس طاقت نہیں۔
شہباز شریف نے حال ہی میں کہا تھا کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر انہوں نے عمران خان کی اتفاق رائے کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش اسلئے ٹھکرا دی گئی کیونکہ فوج میں اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری وزیراعظم کا استحقاق ہے۔ بعد میں عمران خان نے عوامی اجتماع میں کہا کہ شہباز شریف کے پاس کون سی طاقت ہے جو وہ ان سے رابطہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے اُن سے بات کی تھی اور اب بھی اُن ہی سے بات کر رہے ہیں جن سے ملنے کیلئے شہباز شریف گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر جاتے تھے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں