اسلام آباد (پی این آئی) واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے سربراہ نے اقتدار میں آتے ہی پیپلز پارٹی اور اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ لندن کا دورہ کیا تھا۔شہباز شریف کا ترکی کا حالیہ دورہ سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہے۔ کئی ناقدین سلمان شہباز کی تصویر کو اپلوڈ کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ یہ لکھ رہے ہیں کہ ”یہ پاکستان میں مقدمات کی وجہ سے نہیں آ سکتا لیکن ترکی میں سرکاری دورے کے دوران نظر آرہا ہے۔
‘‘یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شہباز شریف کسی دورے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔شہباز شریف اور ان کے رفقا نے اقتدار میں آنے کے بعد عمرہ بھی ادا کیا، جہاں پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی فیملی کے ارکان بھی آئے تھے۔پاکستان میں کئی ناقدین نون لیگ کی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ قومی خزانے پر بیرونی سیر سپاٹے کر رہی ہے جبکہ ان دوروں کے دوران رشتہ دار اور احباب کو بھی نوازا جاتا ہے۔واضح رہے کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب حکومت نے حالیہ دنوں میں ہی ساٹھ روپے سے زیادہ کا اضافہ پٹرول کی قیمت میں کیا ہے۔ جبکہ بجلی کی قیمت اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، جس سے مہنگائی عروج پر پہنچ رہی ہے۔ ملک میں پہلے ہی احتجاج اس مہنگائی کے خلاف شروع ہوگیا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے مہنگائی میں اضافہ کرنے کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ نون لیگ اور شریف فیملی کا پورا ٹبر اقتدار میں آیا ہی اسی لیے ہے کہ وہ قومی خزانے کو لوٹے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پہلے سعودی عرب میں حسن نواز اور حسین نواز سرکاری دورے کے دوران گئے اور اس دورے میں بھی شریف فیملی کے کئی افراد موجود تھے اور اب حسن نوازجو پاکستانی عدالتوں کا مفرور ہے، وہ ترکی پہنچا ہوا ہے جبکہ اس کی بیوی بھی وہاں موجود ہے۔اس طرح کے دورے میں کوئی منطق نہیں کے احباب اور رشتہ داروں کو بلایا جائے لیکن نون لیگ دوسرے ممالک کے سربراہان حکومت کے ساتھ اپنے رشتے داروں کا تعارف کرانا ضروری سمجھتی ہے۔‘‘مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ کہ اس کے برعکس عمران خان نے اپنے جو بھی دورے کیے ہیں اس میں انہوں نے وفد کی تعداد کو بہت مختصر رکھا اور اگر کوئی آیا بھی، تو اس نے اپنی جیب سے کرایہ بھی ادا کیا ہے اور اپنی رہائش کا انتظام بھی خود کیا ہے۔پاکستان میں عموماً حکمراں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے رشتے داروں اور احباب نے ان دورں کے اخراجات خود برداشت کئے ہیں لیکن کئی ناقدین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔
کیبنیٹ ڈویژن کے ایک اعلی ریٹائرڈ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وزیراعظم یا ان کے گھرانے کے افراد اپنے پیسوں پر دورے میں شامل ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کیونکہ وزیراعظم ایک بہت ہائی پروفائل شخصیت ہوتا ہے، تو جب بھی وہ کوئی بیرونی دورہ کرتے ہیں تو وزیراعظم ہاؤس اور جس ملک کا دورہ کرتے ہیں وہاں کا متعلقہ پاکستانی سفارت خانہ ان رشتہ داروں یا احباب کو سہولیات پہنچانے یا پروٹوکول دینے میں مصروف ہو جاتا ہے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ اگر ابھی سلمان شہباز وہاں پہنچے ہیں تو ان کو بھی پاکستان کے سفارت خانے کی طرف سے تمام سہولیات دی گئی ہوں۔‘‘اس عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ وزیراعظم کے گھرانے کے افراد یا ان کے احباب کسی بیرونی دورے میں ان کے ساتھ جائیں۔تاہم خاتون اول جا سکتی ہیں۔ ”پاکستانی سفارت خانے ایسے مواقع پر وزیر اعظم کے رشتے دار اور احباب کو سہولیات دیتے ہیں اور اس کے لیے وزیر اعظم ہاؤس اور وزرات خارجہ اس دورے سے پہلے ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
‘‘تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ بیرونی دورے کے حوالے سے وزیر اعظم با اختیار ہوتا ہے۔سابق سفیر برائے ایران آصف درانی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ جس کو چاہے ساتھ لے جائے ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” یہ بات صحیح ہے کہ وزیراعظم کے گھرانے کے افراد بیرون ملک سرکاری اجلاسوں میں شرکت نہیں کر سکتے، لیکن اگر کوئی بیرون ملک کا سربراہ، صدر یا وزیراعظم کوئی استقبالیہ دیتا ہے تو اس میں وزیراعظم کی فیملی کے افراد شامل ہو سکتے ہیں اور کیونکہ وزیراعظم اور ان کی فیملی کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی ریاستی ہوتی ہے اس لیے پاکستان کے سفارت خانے کو اس حوالے سے کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘آصف درانی کا کہنا تھا کہ رشتے داروں کو ساتھ لے کر جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ”سابق صدر ایوب خان اپنی بیٹی کو بیرونی دوروں پر ساتھ لے کر جاتے تھے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی بے نظیر بھٹو کو ساتھ لے کر جاتے تھے۔ تو یہ کوئی نئی ریت نہیں۔‘‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں