اسلام آباد(پی این آئی) تجزیہ کار حامد میر نے عمران خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ امریکہ مخالف بیانیہ زیادہ عرصےتک نہیں چل سکے گااس لیے وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اوراگر وہ پاکستان کی سیاست میں رہنا چاہتے ہیں تو وہ زمینی حقائق کے مطابق چلیں۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بات کی ہے کہ بیس پچیس ہزار کا مجمع جمع کر کے عدالتی فیصلوں پر تنقید کی جاتی ہے اور اگر آپ پندرہ بیس ہزار بندے اکٹھے کر کے امریکہ اور عدالتی فیصلوں پر تنقید کریں گے تواس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان نے جو چار سال حکومت کی ہےتو ان کے پاس اپنی حکومت کی کارکردگی کے حوالےسے ایسے کوئی اعدادو شمار نہیں ہیں جن کی بناء پر وہ عوام میں جا سکیں اس لیےوہ امریکہ مخالف بیانیہ اپنانا چاہتے ہیں جو کہ قلیل مدت کے لیے ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں ہمارے پاکستان کی جو سیاسی تاریخ ہے اگر اس میں جھانکیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں ایک خط لہرایا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ ہنری کسنجر نے مجھے دھمکی دی ہے اور سفید ہاتھی یعنی امریکہ جو ہے وہ میری جان لینا چاہتا ہے جس سے وہ بھی بڑے مشہور ہوئے تھے۔
پھر اس کے بعد ان کی حکومت ختم ہو گئی اور جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ یہ جو پاکستان کے لوگ جلسوں میں آتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں جب صورتحال بدلتی دیکھتے ہیں تو ان میں سے کوئی پیچھے کھڑا نطر نہیں آتا، نواز شریف کا بھی یہی مسئلہ تھا اور اب دیکھ لیں کہ وہ کہا بیٹھے ہیں۔حامد میر کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان صحیح راستے پر نہیں جا رہے،اگر وہ پاکستان میں نظام تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو وہ بڑی غلطی پر ہیں ۔1973 کےآئین کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔انہوں نے اسی نظام کے اندر رہ کرجدجہد کرنی ہے۔یہی ادارے ہیں جن کو ساتھ لے کر چلنا ہے اوریہ ادارے اور پاکستان آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کل وہ فوج پر تنقید کریں ،آج وہ عدلیہ پر تنقید کریں اور پرسوں وہ صرف میڈیا پر تنقید کریں اس سے وہ اپنی ساکھ کھو دیں گے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان بظاہر بڑے ذہین آدمی ہیں جیسا کہ آپ نے کہا لیکن میرا خیال ہے کہ اپنی ذہانت کو استعمال کرنے سے پہلے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی پڑھ لیں۔وہ ذولفقار علی بھٹو سے نہ تو زیادہ ذہین ہیں اور نہ ہی ہوشیا ر ہیں۔حامد میر کا کہنا تھا کہ اگر ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے اداروں کے ساتھ نہیں لڑ سکے ،ان سے زیادہ پاپولر لیڈر عمران خان نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اتنا پاپولر لیڈر اپنی جان نہیں بچا سکا تو عمران خان کو اپنی سیاست کو بچانا مشکل ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے اور ان کا اعتراف کرے اور سچ کے راستے پر چلے ۔ابھی تک انہوں نے جتنی بھی تقریریں کی اور جتنا ہجوم اکٹھا کیا ہے اس کی اصل وجہ امریکہ مخالف بیانیہ ہے،اس کی بنیاد خط ہے اور خط کی بنیادالوداعی کھانا ہے اور الوداعی کھانہ سفارتکاروں کے اعزاز میں رکھا گیا تھا اور انہوں نے کچھ دنوں تک اپنی زبان کھول دینی ہے ۔اور اگر انہوں نے اپنی زبان کھول دی تو پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔حامد میر کا کہنا تھاکہ عمران خان یہ بیانیہ زیادہ عرصے کے لیے نہیں چلا سکیں گے اس لیے وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں ان کو پاکستان کی سیاست میں رہنا چاہیے۔لیکن اگر وہ پاکستان کی سیاست میں رہنا چاہتے ہیں تو وہ زمینی حقائق کے مطابق چلیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں