نیب کا821ارب روپے کی ریکوری کا دعویٰ لیکن صرف کتنا پیسہ قومی خزانے میں جمع کروایا گیا؟ تہلکہ خیز اسکینڈل آگیا

اسلام آباد(پی این آئی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں وزارت خزانہ کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 821 ارب روپے کی ریکوری کی جبکہ صرف 6 ارب 50 کروڑ روپے ہی قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں۔ وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ باقی 815 ارب روپے کہاں گئے اس کے بارے میں نیب سے ہوچھا جائے، وزارت خزانہ کو اس کا علم نہیں ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چئیرمین سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت خزانہ کی جانب سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ نیب نے اپنے قیام سے اب تک 821 ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔ وزارت خزانہ کو نیب سے صرف 6 ارب 50 کروڑ روپے بطور نان ٹیکس آمدن ہوئی۔ 815 ارب روپے کی ریکوریز سے متعلق وزارت خزانہ کو کوئی علم نہیں۔ اس بارے میں نیب سے پوچھا جائے۔وزارت خزانہ نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے بینکوں کے قرض ڈیفالٹرز سے 121 ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔

ان ڈائریکٹ ریکوری کی مد میں 500 ارب کی ریکوری ہوئی۔ قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی مد میں 59 ارب روپے کی ریکوری ہوئی۔ عدالتوں نے 46 ارب روپے کے جرمانے لگائے۔اس موقع پر کمیٹی کے چئیرمین سینیٹر طلحہ محمود نے سوال کیا کہ 815 ارب روپے کہاں ہیں؟ کمیٹی کے رکن سینیٹر مصدق ملک نے پوچھا کہ یہ پیسے خزانے میں نہیں آ رہے تو کہاں جا رہے ہیں؟اس موقع پر کمیٹی ارکان نے چیئرمین نیب کو بلانے کی سفارش کر دی جس پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ آپ چیئرمین نیب کو نہیں بلائیں گے، آپ کی مجال نہیں ہے۔ کمیٹی نے گورنر سٹیٹ بینک اور ڈی جی نیب کو طلب کر لیا۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ نیب کا ادارہ کرپشن کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

یہ ادارہ ایک ڈکٹیٹر نے اپنے مقاصد کے لیے بنایا تھا۔اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان مہنگائی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے اور اس حوالے سے گورنر سٹیٹ بینک کے بیان پر یک زبان نظر آئے۔سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ عالمی ادارے کہہ رہے ہیں ڈالر 200 روپے تک جائے گا۔ ڈالر ایک دم اوپر گیا، سٹیٹ بینک نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ق لیگ کے کامل علی آغا نے کہا کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں، خدارا ڈالر کنٹرول کریں۔ اسحاق ڈار پر جوئے کا الزام لگتا تھا لیکن اب یہ کام اس سے زیادہ ہو رہا ہے۔ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک میں مہنگائی ہے لیکن یہ ایک عالمی ایشو ہے۔ ملک میں مہنگائی کی وجہ روپے کی قدر میں کمی نہیں ہے۔ عالمی سطح پر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی ہوئی۔

مقامی سطح پر اشیاء کی سپلائی میں خلل سے بھی مہنگائی بڑھ گئی۔کمیٹی چئیرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ڈالر سے متعلق گورنر سٹیٹ بینک کے حالیہ بیان سے پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ حکومتی سینیٹر ولید اقبال نے بھی گورنر سٹیٹ بینک کے بیان کو حقائق کے منافی قرار دے دیا اور کہا کہ اس کے باوجود ان کی حب الوطنی پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ جس پر کامل علی آغا نے کہا کہ ہم ان کی حب الوطنی پر نہیں کرتوتوں پر اعتراض ہے۔اجلاس کے دوران ڈپٹی گورنر سٹیٹ کی روپے کی قدر کے اتار چڑھاؤ میں مداخلت کا اعتراف کیا اور کہا کہ پوری دنیا میں مرکزی بینک مداخلت کرتے ہیں۔سینیٹر کامل علی آغا نے سوال کیا کہ سٹیٹ بینک کیسے مداخلت کرتا ہے؟ ہمیں بتایا جائے، ڈالر 153 سے 175 پر چلا گیا، سٹیٹ بینک نے مداخلت کیوں نہیں کی۔

سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ جب میکنزم ہے تو پھر بتایا جائے کہ کس وقت مداخلت کی جاتی ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے سٹیٹ بینک کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ 23 بار آئی ایم ایف کے پاس جانے کے باوجود پاکستان گرے لسٹ میں ہے۔ مہنگائی کے باعث پاکستان کے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ ڈالر بے شک مصنوعی طریقے سے کنٹرول کریں لیکن عوام کو ریلیف ملنا چاہیے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں