اسلام آباد (آئی این پی) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاک چین تعلقات مذید مضبوط ہونگے ، امریکی عوام افغانستان کی صورتحال سے مکمل بے خبر ہیں، نائن الیون سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا، کوئی پاکستانی اس میں شامل نہیں تھا،القاعدہ افغانستان میں تھی،اس وقت پاکستان میں کوئی مسلح طالبان نہیں تھا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 35لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، اس علاقے کو خطرناک جگہ قرار دیا گیا، ہماری معیشت کو 150ارب
ڈالر کا نقصان ہوا، یہ سب امریکہ کا اتحادی بننے کی وجہ سے ہوا،ہماری قربانیوں کو سراہنے کے بجائے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے ہمیں قربانی کا بکرا بناکر پیش کیا جا رہا ہے، یہ تکلیف دہ عمل ہے، امریکہ کو سوچنا ہو گا ہر بات کاذمہ دار پاکستان نہیں ہو سکتا،ہم امن کیلئے بات چیت پر یقین رکھتے ہیں، افراتفری پھیلنے سے سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کا ہو گا، مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنا چاہیے،کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فورم اور ہر بین الاقوامی فورم پر اٹھانے کی ضرورت ہے، لوگ طالبان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں لیکن جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے انہیں نظر نہیں آتا، امتیازی رویہ نہ اختیار کریں، 9لاکھ بھارتی افواج نے 80لاکھ کشمیریوں کو ایک طرح کی اوپن جیل
میں رکھاہوا ہے،جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے ہمیں اس پر بات کرنا ہو گی ،ہفتہ کو ترک ٹی وی کو دئے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اگلے سال 95فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آئیں گے، اس لئے افغان مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا، جلد یا بدیرہمیں افغان عوام کا سوچنا ہو گا، ایسا نہ ہوا تو افغان آبادی کیلئے بحران گہرے سے گہرا ہوتا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تاریخی قریبی تعلقات ہیں، افغانستان نے کبھی بیرونی طاقتوں کو قبول نہیں کیا، سرحد کے دونوں طرف پشتون آباد ہیں، پشتون لوگوں میں مذہبی اور قومیت کی سطح پر گہرا تعلق ہے، امریکی عوام افغانستان کی صورتحال سے مکمل بے خبر ہیں،ہو سکتا ہے پشتون قبائل آپس میں لڑ رہے ہوں مگر جب غیر ملکی آتے ہیں تو سب متحد ہو جاتے ہیں، کسی پشتون کو قتل کر دیا جائے تو پشتون بدلہ لیتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنرل
کیانی نے سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کو واضح کہا تھا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں اگر آپ افغانستان سے نکلیں گے تو افغان فوج ہتھیار ڈال دے گی اور پاکستان پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے بھی افغانستان کے جنگی حل کی مخالفت کی تھی، یہ مضحکہ خیز ہے کہ امریکی پالیسیوں پر تنقید کی جائے تو ہم امریکہ کے مخالف گردانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جب ہم امریکہ کے اتحادی بنے تو طالبان نے ہمیں امریکہ کا ساتھی تصور کیا اور ہم پر حملے شروع کر دیئے، پاکستانی عوام پر ڈرون حملے اور بم دھماکے کئے گئے،ملک میں مسلح افراد کا اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ بننے پرمیں نے اعتراض کیا تھا کیونکہ نائن الیون سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا، کوئی پاکستانی اس میں شامل نہیں تھا،القاعدہ افغانستان میں تھی،اس وقت پاکستان میں کوئی مسلح طالبان نہیں تھا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 35لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، اس علاقے کو خطرناک جگہ قرار دیا گیا، ہماری معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا، یہ سب امریکہ کا اتحادی بننے کی وجہ سے ہوا،ہماری قربانیوں کو سراہنے کے بجائے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے ہمیں قربانی کا بکرا بناکر پیش کیا جا رہا ہے، یہ تکلیف دہ عمل ہے، امریکہ کو سوچنا ہو گا ہر بات کاذمہ دار پاکستان نہیں ہو سکتا، جدید اسلحہ سے لیس تین لاکھ افغان فوج نے ہتھیار ڈال دیئے، یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہوا،میں نے 2008میں امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کیا،سینیٹر جان کیری اور جوبائیڈن سے ملاقات کی انہیں سمجھانے کی کوشش کی مجھے اس وقت احساس ہوا کہ انہیں افغانستان کے حالات کی خبر ہی نہیں،امریکی عوام افغانستان کی صورتحال سے مکمل بے خبر تھی، امریکی سمجھتے تھے کہ افغانستان میں جمہوریت ہے، عورتوں کو حقوق دیئے جا رہے ہیں، اچانک طالبان آنے سے ان کو شدید دھچکہ لگا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جارج بش کا رویہ سامراج کا عکاس تھا،نائن الیون کے بعد انہوں نے حیران کن بیانات دیئے کہ آپ ہماری پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے تو آپ ہمارے مخالف ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کا کوئی اور ذمہ دار ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے تو ان کو معاف کر دیں گے، کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے کئی گروپ رابطے میں ہیں، سیاسی حیثیت سے کہتا ہوں کہ سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، ہم نے بلوچ عسکری پسندوں سے بھی بات کی اور سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنا چاہیے،کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فورم اور ہر بین الاقوامی فورم پر اٹھانے کی ضرورت ہے، لوگ طالبان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں لیکن جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے انہیں نظر نہیں آتا، امتیازی رویہ نہ اختیار کریں، 9لاکھ بھارتی افواج نے 80لاکھ کشمیریوں کو ایک طرح کی اوپن جیل میں رکھاہوا ہے،جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے ہمیں اس پر بات کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میرا مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں سے آپ کا اتحاد ہو آپ ان کی انسانی حقوق کی زیادتیوں سے قطع نظر ہو جاتے ہیں اور آپ کی توجہ مخالف بلاک پر ہوتی ہے جب کوئی دوسرا انسانی حقوق کی زیادتیوں کا تذکرہ کرتے تو آپ کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ دیکھی اس وقت دنیا دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی تھی، خواہش ہے دوبارہ ایسا نہ ہو، تقسیم کی بجائے مل کر بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے،ہم نے فروری 2020سے اب تک چینی وزیراعظم سے تین بار بات کی، میرا خیال ہے کہ صدر شی جن پنگ کورونا وباء کی وجہ سے خود کو محدود کرلیا ہے، انہوں نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا ان دنوں وہ چین سے باہر بھی نہیں گئے،آنے والے دنوں میں صدر شی سے بات ہو گی ہمارا چین سے بہت مضبوط تعلق ہے،70سالہ یہ تعلق مزید مضبوط ہو گا، یہ دوستی نشیب و فراز کے باوجود ہر آزمائش پر پورا اتری،سی پیک منصوبہ درست سمت میں جا رہا ہے، بدقسمتی سے کورونا وباء نے دنیا بھر کیلئے رکاوٹیں پیدا کیں، اس سے رابطے متاثر ہوئے، کورونا وباء نے پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کی معیشت کو متاثر کیا، چیزوں کی قیمتیں بڑھیں، ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے، پاکستان میں مہنگائی درآمد ہونے والی اشیاء کیوجہ سے ہے، پچھلے پانچ ماہ میں خوردنی تیل کی قیمت میں 80فیصد اضافہ ہوا، ہمیں گندم باہر سے برآمد کرنا پڑی جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، یہ مہنگائی عارضی ہے، راستے کھلنے سے اشیاء کی قیمتیں معمول پر آ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اپوزیشن اپنی مفاد کی جنگ لڑ رہی ہے، یہ مختلف لوگوں کا مجموعہ ہے، ان کی رائے تقسیم ہے، ان کے خلاف کرپشن کے بڑے الزامات ہیں، پاکستان کی دوبڑی جماعتیں دراصل فیملی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں، ان دونوں خاندانوں نے ملک کو لوٹا، اسی وجہ سے ملک ابتری کا شکار ہے، اس ملک نے کورونا وباء سے بہتری طریقے سے مقابلہ کیا، لوگوں کو معاشی بحران سے بچایا،اپوزیشن کا کام ہے کہ مسائل سامنے لانا لیکن اپوزیشن سیاست کر رہی ہے۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں