راکاپوشی سر کرنے کا جنون، ایک پاکستانی اور دو غیر ملکی کوہِ پیما بڑی مشکل میں پھنس گئے

اسلام آباد(پی این آئی)راکاپوشی پہاڑ سر کر کے لوٹنے والے ایک پاکستانی اور دو جمہوریہ چیک کے کوہ پیما پہاڑ پر 6900 میٹر کی بلندی پر پھنس گئے ہیں۔ایک چیک کوہ پیما کی طبیعت خراب ہے، جبکہ زاد راہ بھی ختم ہو چکا جس کے بعد گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے عسکری ہیلی سروس سے ریسکیو آپریشن کرنے کی درخواست کی ہے۔

واجداللہ کے بھائی خیراللہ کے مطابق ’کوہ پیماؤں کی ٹیم نے جمعرات کی شام کو واپسی کا سفر شروع کردیا تھا۔ تاہم چھ ہزار 900 میٹر کی بلندی تک واپس آنے کے بعد ایک چیک کوہ پیما کی طبیعت خراب ہوئی جس کی وجہ سے انہیں بلندی پر رکنا پڑا۔

سنیچر کو ڈپٹی کمشنر نگر کی جانب سے کمشنر گلگت بلتستان ڈویژن کو مراسلہ تحریر کیا جس میں بتایا کہ ریسکیو 1122 کو موصول معلومات کے مطابق کوہ پیما 6 ہزار 900 میٹر کی اونچائی پر پھنسے ہوئے ہیں جن کو ریسکیو کرنے کے لیےعسکری ہیلی سروس کو کہا جائے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت کے پاس موجود ہیلی کاپٹر اس قدر اونچائی پر ریسکیو آپریشن نہیں کرسکتا، لہٰذا سکردو یا اسلام آباد سے ہیلی کاپٹر منگوائے جانے کا امکان ہے۔دوسری جانب نگر کے مقامی یاور عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’واجداللہ نے اپنے گھر والوں سے آخری رابطے میں بتایا ہے کہ ان کے پاس سامان کی قلت ہے اور اگر انہیں اتوار کی صبح تک ریسکیو نہیں کیا گیا تو ان کا زندہ بچنا مشکل ہوگا۔‘واجد اللّٰہ نگری نے دو چیک کوہ پیماؤں پیٹر میسیک اور جیکب ویسیک کے ہمراہ آٹھ ستمبر کو راکاپوشی پہاڑ سر کیا تھا۔ جس کے بعد واجد اللہ یہ مہم جوئی کرنے والے دوسرے پاکستانی کوہ پیما بن گئے۔اس سے قبل 1979 میں پاکستانی کوہ پیما کرنل شیر خان نے یہ مہم کرنا چاہی تھی، لیکن پہاڑ سر کرنے کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور انہیں ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر فقیر محمد نے واپس اتارا تھا۔راکاپوشی سات ہزار 788 میٹر اونچا پہاڑ ہے جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ دنیا کے اونچے ترین پہاڑوں میں راکاپوشی کا 27 واں نمبر ہے اس پہاڑ کو سر کرنے میں مشکل مرحلہ یہ ہے کہ راکاپوشی وہ واحد پہاڑ ہے جس کے بیس کیمپ سے چوٹی کا فاصلہ پانچ ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ دیگر اونچے پہاڑوں بشمول کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ میں بیس کیمپ سے چوٹی کا فاصلہ پانچ ہزار میٹر سے کم ہے۔چیک ریپبلک کے دو ساتھی کوہ پیماؤں کے ہمراہ گلگت بلتستان کے کوہ پیما واجد اللہ نگری نے یکم ستمبر کو اس مہم کا آغاز کی تھا جو آٹھ ستمبر جمعرات کو مکمل ہوئی.الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے مہم کے کامیابی سے مکمل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے تینوں کوہ پیماؤں کو راکاپوشی سر کرنے پر مبارکباد دی تھی۔واضح رہے کے پاکستان میں بلند چوٹیوں کو سر کرنے کی مہم پر آئے تمام کوہ پیما عسکری ایوی ایشن کے پاس سیکیورٹی ڈپوزٹ 15 ہزار ڈالر جمع کرواتے ہیں، جس کا مقصد ایسی کسی ایمرجنسی صورتحال میں ریسکیو آپریشن کرنا ہوتا ہے۔اگر مہم بنا کسی ریسکیو کے مکمل ہوجائے تو جمع کروائی گئی رقم کا کچھ حصہ کٹوتی کے بعد واپس کردیا جاتا ہے۔ عسکری ایوی ایشن کو پاکستان آرمی کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے اور ایسے کسی آپریشن کے لیے آرمی ایوی ایشن کے ماہر پائلٹس اور ہیلی کاپٹر کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

لوگ طعنے دے رہے تھے کہ یہ لڑکی ہو کر پہاڑ سر کرنے جا رہی

’جب کیمپ ون پر بھی موسم خراب ہوا تو اندیشہ تھا کہ ہم چوٹی سر کرنے کے لیے نہیں جا سکیں گے، تو دل بہت افسردہ ہوا کیوںکہ جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تو لوگ طعنے دے رہے تھے کہ یہ لڑکی ہو کر پہاڑ سر کرنے جا رہی ہے۔ لوگ میرے ابو کو کہہ رہے تھے کہ بیٹی کو بے حیائی کی طرف لے جا رہے ہو۔‘یہ کہنا ہے گلگت بلتستان کے علاقے شگر کے گاؤں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی کمسن کوہ پیما آمنہ شگری کا، جنہوں نے اپنے والد اور بھائی کے ساتھ مل کر حال ہی میں 6400 میٹر بلند چوٹی خسر گنگ کو سر کیا ہے۔ وہ ثمینہ بیگ کے بعد گلگت سے تعلق رکھنے والی دوسری خاتون کوہ پیما ہیں۔آمنہ شگری کے پاس اپنا موبائل فون بھی نہیں ہے، لیکن اپنے بھائی علی شگری کے فون کے ذریعے ’اردو نیوز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے بچپن ہی سے پہاڑوں پر جانے کا شوق رہا ہے۔ جب ابو بھیڑ بکریوں کو پہاڑوں پر لے کر جاتے تو میں ضد کرکے ان کے ساتھ جاتی، کیونکہ اس سے میرا ٹیمپریچر برابر ہوتا تھا۔‘’میرے ابو کلائمبنگ ماسٹرز ہیں۔ وہ لوگوں کو پہاڑوں پر لے کر جاتے ہیں۔ وہ جب بھی پہاڑوں پر جاتے تو میں کافی دور تک ان کے پیچھے پیچھے جاتی اور واپسی پر میں ان کے سفر کے بارے میں پوچھتی۔ تجربات جانتی۔ شاید وہ اس وقت سمجھ گئے تھے کہ مجھے بھی کوہ پیمائی کا شوق ہے۔ اسی دوران پتا نہیں کب میرا ان پہاڑوں کے ساتھ دل گیا۔‘آمنہ شگری نے کہا کہ ’میرا خواب تھا کہ میں بڑے بڑے پہاڑ سر کروں۔ وہاں مزے کروں، لیکن میری خوشی کا اس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب ابو نے پوچھا کہ ’بیٹی کیا تم میرے ساتھ پہاڑ پر چلو گی؟‘’میں نے فوراً کہہ دیا کہ ہاں میں چلوں گی۔ میرے لیے وہ خوشی کا پل بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں، کیونکہ مجھے وہ خواب حقیقت میں بدلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جو میں برسوں سے دیکھ رہی تھی۔‘فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں آنکھ کھولنے اور پروان چڑھنے والی آمنہ کے خواب ان بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے ہیں۔ تاہم نا مساعد حالات اور خواتین کے لیے روایت پسند ماحول ان کی راہ میں حائل ہے۔‘’مجھے پریشانی ہوئی کہ پہاڑ پر جانے کے لیے تو وسائل کی ضرورت ہوتی ہے تو میں نے ابو سے کہا کہ بغیر تیاری کے ہم کیسے جا سکتے ہیں؟ تو انہوں نے تسلی دی کہ میں جن لوگوں کو لے کر جاتا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے کچھ چیزیں دی تھیں اور کہا کہ باقی کا میں بندوبست کر لوں گا اور ہم جائیں گے۔ ابو نے اپنی مدد آپ کے تحت سامان اکٹھا کیا۔‘آمنہ شگری نے بتایا کہ ’اس کے بعد ابو نے بھائی علی شگری سے بھی پوچھا کہ کیا وہ بھی ساتھ جانا چاہیں گے تو انہوں نے بھی کہا کہ ہاں مجھے بھی کوہ پیمائی کا شوق ہے، لیکن اپنے گھر کے مالی حالات کی وجہ سے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا۔ یوں ہم تینوں نے ایک ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ہمارا شوق تو تھا ہی، لیکن یہ میرے ابو کا شوق بھی تھا جسے ہم پورا کرنے جا رہے تھے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’23 اگست کو جب ہم اللہ کا نام لے کر نکلے تو لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بھی بنائیں، لیکن میرے ابو ساتھ تھے اس لیے میں نے ان لوگوں کی باتوں پر توجہ نہیں۔ امی کا بھی ساتھ تھا۔ انہوں نے ہر لمحہ حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ ’تم کر سکتی ہو۔‘آمنہ شگری کے مطابق انہوں نے روانگی سے قبل ایک غلطی کی کہ موسم نہیں دیکھا۔’جب بیس کیمپ پر پہنچے تو کافی بارشیں ہوئیں، ہوائیں بھی تیز تھیں جس وجہ سے بیس کیمپ پر دو سے تین دن انتظار کرنا پڑا۔ پھر جب موسم نارمل ہوا تو ہم کیمپ ون کی طرف چلے گئے۔ کیمپ ون پہنچے تو وہاں پر بھی موسم خراب ہوگیا۔‘’دو تین دن مزید رکنا پڑا تو بہت پریشانی ہوئی، بہت افسردگی ہو رہی تھی کہ جس خواب کو میں پورا کرنے آئی ہوں اس میں اتنی مشکل آ رہی ہے موسم کب صاف ہوگا؟‘’یہ سوچ سوچ کر میرا دل بہت گبھرا رہا تھا اور ساتھ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ جاتے وقت لوگوں نے کہا تھا کہ یہ لڑکی کر پائے گی؟ لوگوں نے طعنے بھی دیے میرے ابو کو برا بھلا کہا کہ بیٹی کو بے حیائی کی طرف لے کر جا رہے ہو، لیکن ہم نے کسی کی نہیں سنی تھی یہی وجہ تھی کہ دل میں خوف تھا کہ کہیں ناکام واپس نہ لوٹنا پڑے۔‘کم سن کوہ پیما کا کہنا ہے کہ ’جب موسم صاف ہوا تو خوشی ہوئی کہ ہم اپنی منزل کو روانہ ہوسکیں گے۔ ہم نے صبح چار بجے اپنا سفر شروع کیا۔ اس وقت اتنی تیز اور یخ بستہ ہوائیں تھیں کہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہوائیں ہمیں اڑا کر لے جائیں گی۔ بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ کھانے پینے کا سامان کم تھا، رسی بھی تھوڑی تھی اور ہیڈ لائٹ بھی نہیں تھیں جس وجہ سے ہمارا وقت کافی ضائع ہو رہا تھا۔‘ہمیں 1200 میٹر رسی درکار تھی، لیکن ہمارے پاس 100 میٹر سے بھی کم تھی۔ پھر بھائی اور ابو نے کوشش جاری رکھی اور ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہوئے کہ ہو جائے گا ہو جائے گا کہتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ صبح چار بجے نکل کر ہم ساڑھے تین بجے تک خسر گنگ چوٹی کو سرکرنے میں کامیاب ہوئے۔‘آمنہ شگری نے بتایا کہ ’اپنے مشن کو پورا کرکے خوشی کی انتہا ہوگئی کہ ہم نے اپنا خواب پورا کرلیا ہے۔ چوٹی پر پہنچ کر جب پاکستان کا پرچم لہرایا تو ابو نے بتایا تھا کہ وہاں پہنچ کے ٹو جی ون اور جی ٹو کی چوٹیاں نظر آئیں گی، لیکن تب تک بادل ان کو ڈھک چکے تھے۔ ہم نے تصاویر بنانا شروع کیں تو ابو نے کہا کہ ہم زیادہ دیر یہاں نہیں رک سکتے، کیونکہ سامان کم ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں سفر مشکل ہوگا۔‘’مشن پورا کرنے کی خوشی اتنی تھی کہ گاؤں کا واپسی کا سفر، جو دو سے تین دن کا ہے، ہم نے راتوں رات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم اسی رات واپس اترے، کیوںکہ ہمیں نیند ہی نہیں آئی۔ بیس کیمپ پہنچ کر ہم نے اپنے پاس تین چار دن کی باسی روٹی اور سبز قہوہ سے ناشتہ کیا اور گاوں کی طرف دوڑ پڑے۔‘آمنہ شگری کا کہنا ہے کہ ’جب گاؤں پہنچے تو لوگوں کا رویہ بدل چکا تھا وہ خوش تھے اور انہوں نے ہمارا استقبال کیا، ہار پہنائے اور شاباش دی۔ ان کے ذہنوں میں جو منفی باتیں تھیں وہ نکل چکی تھیں۔‘15 سال کی عمر میں ہی آمنہ نے پہاڑوں کو تسخیر کرنے کے خواب کی تعبیر خسر گنگ کو سر کر کے پا لی، مگر آمنہ کہتی ہیں ان کی منزل ابھی دور ہے، کامیابی کا پہلا قدم ان کو مزید آگے جانے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں آمنہ شگری نے کہا کہ ’میں کلائمبنگ سکول سے تربیت حاصل کرکے کوہ پیمائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کم از کم پاکستان کی تمام چوٹیاں بشمول نانگا پربت، جی وین جی ٹو اور کے ٹو سر کرنا چاہتی ہوں۔‘

close