راولپنڈی(آئی این پی)پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال غیر متوقع تھی، اسی تناظر میں سیکیورٹی اقدامات کیے جا رہے ہیں، افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد محفوظ ہے، جمعہ کو راولپنڈی میں میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 15اگست کے بعد تیزی سے تبدیلی آئی، پاکستان نے پہلے سے ہی اقدامات کرتے ہوئے نقل وحرکت کو کنٹرول کر لیا تھا،افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سب ہی کو معلوم ہے، امریکا اور نیٹو افواج کا انخلا پہلے سے طے شدہ تھا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 15اگست سے قبل افغان نیشنل آرمی سے تعلق رکھنے والے کئی فوجی دو سے زائد مواقع پر پاکستان میں محفوظ راستے کی تلاش میں داخل ہوئے کیونکہ وہ خوفزدہ تھے کہ ان کی پوسٹوں پر طالبان حملہ کر سکتے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ ‘انہیں قبول کیا گیا اور فوجی اصولوں کے تحت محفوظ راستہ دیا گیا،ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے دوسری سب سے بڑا مقام پاکستان ہے، اب تک 113پروازیں فوجی اور تجارتی دونوں افغانستان سے پاکستان پہنچ چکی ہیں، پاک افغان سرحد پر حالات معمول پر ہیں اور کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا، میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افغانوں کے علاوہ اس تنازع کے ‘سب سے زیادہ متاثرین’ پاکستانی ہیں،ان کا کہنا تھا کہ ‘سوویت یونین کے حملے کے بعد سے ہمیں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، معاشی نقصانات کے علاوہ 86 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہو چکی ہیں،اس کے علاوہ 2014کے بعد سے پاکستان کی مشرقی سرحد پر 12ہزار 312جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوئیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مسلح افواج نے 1237بڑے اور معمولی آپریشن کیے اور مغربی سرحد کے ساتھ 46ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کا علاقہ دہشت گردوں سے پاک کیا،ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری عظیم قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے ہماری مسلح افواج دہشت گردی کی لہر کو موڑنے میں کامیاب ہوئیں، انہوں نے کہا کہ سرحد کی پاکستانی سائیڈ مکمل طور پر محفوظ ہے، پاکستان میں امن کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے گئے، ہم نے پاک افغان بارڈر کیلئے بہترین اقدامات کیے، صورتحال سامنے رکھتے ہوئے چیک پوائنٹس پر دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے حد قربانیاں دیں،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 80ہزار سے زائد جانیں دیں، پاکستان کو 2013 میں دہشتگردی کے 90بڑے واقعات کا سامنا کرنا پڑا لیکن قوم کی حمایت سے ہم نے کامیابی حاصل کی،انہوں نے کہا کہ 15اگست کے بعد سے سرحدی گزرگاہیں تجارت کیلئے کھولی جا چکی ہیں، سرحد پر قانونی دستاویزات کے ساتھ نقل وحمل کی اجازت ہے،سرحدی امور معمول کے مطابق ہیں، کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا،انہوں نے بتایا کہ ’78میں سے سترہ سرحدی گزرگاہوں کو (مزید تعیناتی کے لیے)نوٹیفائی کیا گیا تھا اور تمام غیر قانونی تجاوزات کو بند کر دیا گیا تھا، 15اگست کے بعد ٹرمینلز اور سرحدی گزرگاہیں کھلی رکھی گئیں، قافلے بھی دونوں اطراف میں مسلسل آرہے اور جارہے ہیں،میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ہم نے افغان سپیشل فورس کو ٹریننگ کی پیشکش کی تھی لیکن صرف 6افغان کیڈٹ افسر ٹریننگ کے لیے پاکستان آئے، ہزاروں افغان اہلکار بھارت سے ٹریننگ لیتے رہے ہیں،ترجمان پاک فوج نے کہا کہ افغانستان کے حالات کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا بڑا منصوبہ تھا۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا 90فیصد جبکہ ایرانی سرحد کے ساتھ 50فیصد کام مکمل ہو گیا ہے۔ سرحد پر 2ہزار سے زائد پاکستانی چوکیاں موجود ہیں لیکن افغانستان کی صرف 350چوکیاں تھیں،انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے 2014 سے تیاریاں کر رہے تھے، آرمی چیف نے مشرقی سرحد کو محفوظ بنانے کا وژن دیا،ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی پر پاک فوج کے دستے تعینات ہیں، داسو، لاہور، کوئٹہ اور گوادر میں دہشتگردی واقعات کے ذمہ داروں کا تعین کر دیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں