اسلام آباد( آئی این پی) سینیٹ میں اپوزیشن رہنمائوں نے حکومت سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے وعدے کوپورا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے کبھی سیکرٹریٹ کا مطالبہ نہیں کیا تھا ہم نے صوبے کامطالبہ کیا تھا، اگر سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو معاشی استحکام نہیں آئے گا، احتساب اور انتقام میں بہت معمولی فرق ہے ، وکٹمائزیشن نہیں ہونی چاہیے ،گردشی قرضہ مسلسل اضافے سے 2ہزار چار سو ارب کی حد تک بڑھ چکا ہے، وزیر خزانہ گردشی قرضے کا بوجھ آنے والی حکومت پرڈالنا چاہتے ہیں،زرعی شعبے میں گروتھ میں کمی کی خاص وجہ کاٹن پیداوار میں کمی ہے ،اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، عوام دوست بجٹ اس بجٹ کو کہا جاتا ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف ملے، ایسی توکوئی بات اس بجٹ میں نہیں یہ بجٹ کسی بھی اعتبار سے عوامی بجٹ کہلانے کا مستحق نہیں ،سوشل سیکٹر میں بھی بلوچستان کے لیئے ایک بھی منصوبہ نہیں ہے، پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لیئے بڑی یونیورسٹی اور ہسپتال شامل کیا جائے جبکہ قائد ایوان سینیٹ سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ ابھی تو ترقی کا سفر شروع ہوا ہے ابھی سے اپوزیشن کی صفوں میں گھبراہٹ نظر آرہی ہے ، آج گردشی قرضے کی گروتھ ن لیگ حکومت کے آخری سال کی نسبت کم ہے،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کی سیاست کا بھی پتہ ہے ،معیشت کابھی پتہ ہے اور پاکستان کے سیاستدانوں کا بھی پتہ ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل کر رہے گا۔ پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا ، اجلاس میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم نے گوادر میں ساتواں این ایف سی ایوارڈ ڈکلیئر کیا، این ایف سی ایوارڈ نہیں ہو گا تو وسائل کی تقسیم میں مشکل آسکتی ہے، ہم نے آغاز حقوق بلوچستان کا آغاز کیا، ہم نے ان کو حقوق بھی دیئے ، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ جنوبی پنجاب کا ہم نے نام لیا تھا، میں نے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی سے قرارداد پاس کرائی، کمیشن کے مطابق سب اسٹیک ہولڈرز کو بلایا اور کہا تجاویز دیں پھر یہ معاملہ کمیٹی میں گیا، تمام جماعتوں نے جنوبی پنجاب کا بل منظور کیا، یوسف رضا گیلانی نے حکومت سے کہا کہ آپ اپنے وعدے کو پورا کریں، وہاں سیکرٹریٹ تو بنادیا ہے ،ہم نے کبھی سیکرٹریٹ کا مطالبہ نہیں کیا تھا ہم نے صوبے کامطالبہ کیا تھا، یہاں سرکاری ملازمین کا دھرنا ہوا تھا،وہ مطالبات جو حکومت نے خود مانے ہیں ، ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیئے، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم نے اس وقت 13سال سے نکالے گئے سرکاری ملازمین کو روزگار فراہم کیا، میں نے کہا تھا کہ نوکری دینا جرم ہے تو میں یہ جرم بار بار کرتا رہوں گا، میں نے دس سال جیل میں گزارے، سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہاں بل آتا ہے اور ہمیں پتہ نہیں ہوتا اور وہ بلڈوزر کر دیا جاتا ہے، صدر آصف علی زرداری نے صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیئے، الیکٹورل ریفارمز تو ہم بھی چاہتے ہیں ہونا چاہیے،اچھے کام اچھے انداز میں ہونے چاہئیں، انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کہتی تھی اگر مودی جیت جائے گا تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ، اقوام متحدہ کی قراردادیں کہاں گئیں، مقبوضہ کشمیر میں مظالم ہو رہے ہیں سات لاکھ وہاں بھارتی فوج تعینات ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ فاٹا کے لیئے ہم نے کمیٹی بنائی تھی ، ہم چاہتے تھے فاٹا کومین سٹریم میں لے آئیں، وہ سچے پاکستانی ہیں، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ چین ہمارا بہت اچھا دوست ہے، سی پیک پاکستان کے لئے گیم چینجر ہے، صدر آصف علی زرداری نے اور میں نے کئی مرتبہ چین کا دورہ کیا، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں وزیر اعظم بنا تو نیب کا ادارہ کابینہ کے انڈر تھا میں نے کہا کہ اسے قانون و انصاف کے پاس ہونا چاہیے، میں نے اس کو ٹرانسفر کیا ،میرے دور اقتدار میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو معاشی استحکام نہیں آئے گا، احتساب اور انتقام میں بہت معمولی فرق ہے ، وکٹمائزیشن نہیں ہونی چاہیے، شہباز شریف، حمزہ شہباز بھی جیل میں رہے ، خورشید شاہ بھی جیل میں ہیں ان کے بیٹے کو بھی پکڑ لیا ہے، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ گردشی قرضہ مسلسل اضافے سے 2ہزار چار سو ارب کی حد تک بڑھ چکا ہے، وزیر خزانہ گردشی قرضے کا بوجھ آنے والی حکومت پرڈالنا چاہتے ہیں،زرعی شعبے میں گروتھ میں کمی کی خاص وجہ کاٹن پیداوار میں کمی ہے ،اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے وزیر اعظم اور ان کی معاشی ٹیم کو مبارک باد دیتے ہوئے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا ، سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے اس سے پہلے اسٹیل مل اور پی آئی اے بھی نفع بخش ادارے تھے، ن لیگ کے دور میں بھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے ہیں، سینیٹر شہزاد ووسیم نے کہا کہ پہلی مرتبہ ریکارڈ ترسیلات زر پاکستان میں آئے ،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کی سیاست کا بھی پتہ ہے ،معیشت کابھی پتہ ہے اور پاکستان کے سیاستدانوں کا بھی پتہ ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل کر رہے گا ، شہزاد وسیم نے کہا کہ ابھی تو ترقی کا سفر شروع ہوا ہے ابھی سے اپوزیشن کی صفوں میں گھبراہٹ نظر آرہی ہے،ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ بات کرنے کا بھی حوصلہ ہے ،ہم ملک کی معیشت کو آگے لے کر بھی چلیں گے ، چار فیصد گروتھ تو ابتدا ہے ہم اسے چھ یا سات فیصد تک لے کر جائیں گے ، اس بجٹ میں جو بنیادی بات ہے وہ اس بجٹ کی ڈائریکشن ہے، اس بجٹ کا محور چالیس سے ساٹھ لاکھ خاندان ہیں، 20لاکھ روپے تک ایک عام آدمی قرضہ لے سکتا ہے ، حکومت تین لاکھ تک سبسڈی دے رہی ہے، بینکوں میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں، آئی ٹی سیکٹر کو بھی انڈسٹری کا درجہ دیا جا رہا ہے، نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں، سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ انرجی سیکٹر کی تلخ تاریخ ہے ، آج گردشی قرضے کی گروتھ ن لیگ حکومت کے آخری سال کی نسبت کم ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے ہم کسی صورت میں بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کریں گے ، شہزاد وسیم نے کہا کہ ملک میں سستی بجلی پیدا کرنا ناگزیر ہے، تین ڈیموں پر تیزی سے کام جاری ہے،کم سے کم اجرت بیس ہزار رکھی گئی ہے، 29ملین نئے ٹیکس فائلر آچکے ہیں ، چار ہزار ارب سے زیادہ کلیکشن کرکے دکھائی ہے، اگلے سال کا ہدف بھی حاصل کر کے دکھائیں گے ۔نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں موٹروے نہیں بنا، ہائی ویز کو اپ گریڈ کر کے موٹروے کا نام دے دیا جاتا ہے، سوشل سیکٹر میں بھی بلوچستان کے لیئے ایک بھی منصوبہ نہیں ہے، پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لیئے بڑی یونیورسٹی اور ہسپتال شامل کیا جائے، عوام دوست بجٹ اس بجٹ کو کہا جاتا ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف ملے، ایسی توکوئی بات اس بجٹ میں نہیں یہ بجٹ کسی بھی اعتبار سے عوامی بجٹ کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔( ع ا)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں