اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے وزارتوں کی کارکردگی پر ’نوکمپرومائز‘ کی پالیسی اپنالی ہے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وفاقی وزارتوں، ڈویژنوں اور محکموں کی مانیٹرنگ سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اگلے ڈھائی سال حکومتی
ترجیحی پالیسیوں پر عملدر آمد کرانے کا پلان تیار کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم آفس کی جانب سے 42 وزارتوں، ڈویژنوں کی کارکردگی باقاعدگی سے مانیٹر کی جائے گی اور متعلقہ وزرا، سیکریٹریز کو حکومتی اہداف کے ٹائم فریم میں عملدر آمد کا پابند بنایا جائے گا۔ذرائع کے مطابق کابینہ اور محکمانہ اجلاسوں کے فیصلوں پرعملدرآمد کی رپورٹس تیار کی جائیں گی اور عوامی ریلیف اور فلاحی منصوبوں کی تکمیل کے فیصلوں پر بھی عملدرآمد کو ترجیح دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران کان کی جانب سے وزارتوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے کئی آپشنز پرغور شروع کر دیا گیا ہے۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے ملک میں یکساں نظام تعلیم لانے کا علان کر دیا
اسلام آباد (آئی این پی ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم ایک تعلیمی نصاب لا رہے ہیں جو سب کے لیے یکساں ہو گا۔ ہفتہ کو نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حضور اکرم ؐ ہمارے رول ماڈل ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے یوتھ کو بتانا چاہیے کہ ان کا رول ماڈل کیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے آٹھویں سے دسویں جماعت میں سیرت نبی ؐ کا مضمون رکھا ہے۔ جس میں حضورؐکی زندگی
کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔عمراں خان نے کہا کہ دوسرا ہم ایک پی ایچ ڈی پروگرام لا رہے ہیں جس کا آغاز سرگودھا یونیورسٹی سے کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگلے سال القادر یونیورسٹی بن جائے گی جہاں اسلام کی تاریخ پر ریسرچ اور صوفی ازم کی تعلیم دی جائے گی۔ کیونکہ برصغیر میں صوفی شخصیات کے توسط سے ہی اسلام پھیلا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے دینی مدارس سے کہا ہے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ دوسری کتابیں بھی پڑھیں تاکہ وہ مرکزی دھارے میں آ سکیں۔ جس پر وہ مان گئے ہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ یکساں نصاب کا نظام ہم اگلے سال سے لا رہے ہیں کچھ مضامین ایسے ہوں گے جو سب کو پڑھنے پڑیں گے۔عمران خان نے کہا کہ یہ کام ہمیں 70 سال پہلے کرنا چاہیے تھا کیونکہ تین طبقاتی نظام کے باعث کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جو بھی بندہ کام کرتا ہے اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں یا تو وہ پیسے بنانے کے لیے کام کر رہا ہے یا عوام کے لیے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے زیادہ تر لوگوں کو اپنی ذات کی فکر لگی رہتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کسی پیسے والے شخص کا نام نہیں ہے۔ بڑے بڑے پیسے والے آئے اور چلے گئے۔ تاریخ صرف ان کو یاد رکھتی ہے جو معاشرے کے لیے کچھ کرے۔ آج بھی بزرگان دین کے مزاروں پر لاکھوں لوگ جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں