اسلام آباد (پی این آئی) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جائیدادیں اور اثاثے قرق کرنے کا حکم دیدیا۔تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت نے تفتیشی افسر کو توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی منقولہ و غیرمنقولہ جائیدادوں، اثاثوں
سے متعلق تفصیل پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔جس پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے عدالتی حکم کی تعمیل میں نواز شریف کے اثاثوں سے متعلق اہم ریکارڈ پیش کیا گیا۔احتساب عدالت نمبر 3 کے جج اصغر علی کے سامنے پیش کیے گئے ریکارڈ پر جج نے نواز شریف کی جائیداد اور اثاثوں کی ضبطی کا حکم دے دیا۔جس کے بعد نواز شریف کی جائیدادیں، گاڑیاں، بینک اکاؤنٹس قرقی میں شامل ہیں جبکہ سابق وزیراعظم کے نام پر لاہورمیں 1650 کینال سے زائد زرعی اراضی بھی قرقی میں شامل ہے،اس کے علاوہ نواز شریف کے زیر استعمال پرتعش گاڑیاں، 2 ٹریکٹرز، نجی بینک میں سابق وزیراعظم کے نام ملکی و غیر ملکی اکاؤنٹس بھی قرق کرنے کا حکم دیا گیا۔جج احتساب عدالت نے کہا کہ مری میں نواز شریف کے نام بنگلہ اور شیخوپورہ میں 102کنال زرعی اراضی بھی قرق کی جائے۔خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے توشہ خانہ ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد ہیں۔ریفرنس کی 9 ستمبر کی سماعت میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، عبدالغنی مجید اور انور مجید پر فرد جرم عائد کردی تھی جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا تھا۔ احتساب عدالت کے جج نے نواز شریف کے کیس کو الگ کردیا تھا۔یاد رہے کہ 11 جون کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔واضح رہے کہ 1974 میں قائم ہونے والا توشہ خانہ، کابینہ ڈویڑن کے انتظامی کنٹرول کے تحت کام کرنے والا محکمہ ہے اور یہاں دیگر حکومتوں، ریاستوں کے سربراہاں اور غیرملکی شخصیات کی جانب سے جذبہ خیرسگالی کے طور پر حکمرانوں، اراکین پارلیمان، بیوروکریٹس اور حکام کو دیے جانے والے قیمتی تحائف کو رکھا جاتا ہے۔قواعد کے تحت یہ لازمی ہے کہ توشہ خانہ میں ایک خاص قیمت کے تحفے جمع کروائے جائیں تاہم کسی بھی عہدیدار کو یہ تحائف رکھنے کی بھی اجازت ہے بشرطیکہ وہ توشہ خانہ جائزہ کمیٹی کے ذریعے لگائے گئے قیمت کے تخمینہ کا کچھ فیصد ادا کرے۔مذکورہ ریفرنس میں بیورو نے الزام عائد کیا کہ کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور ا?صف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویڑن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں