سعود ی عرب عمران خان کو ہٹا کر راحیل شریف کو وزیراعظم پاکستان بنوانا چاہتا ہے؟ دعوے نے ہلچل مچا دی

لندن(پی این آئی) پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی کی خبریں کچھ وقت سے گردش میں ہیں اور اب اس حوالے سے غیرملکی نیوز ویب سائٹ ’alaraby.co.uk‘ نے ایک تہلکہ خیز دعویٰ کر دیا ہے۔ ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں پڑنے والی دراڑ نے

سعودی حکومت کو وزیراعظم عمران خان کے مقابلے میں سابق آرمی چیف جنرل (ر)راحیل شریف کی حمایت کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور سعودی حکومت انہیں عمران خان کی جگہ وزیراعظم بنوانا چاہتی ہے۔ اس ویب سائٹ نے یہ دعویٰ کچھ پاکستانی اور بھارتی میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر کیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت، سعودی عرب کی قیادت میں بننے والی اسلامی فوجی اتحاد کے کمانڈر جنرل راحیل شریف کو پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے تیار کر رہی ہے اور وہ وزارت عظمیٰ کے لیے سعودی حکومت کے ترجیحی امیدوار بن چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے مابین روایتی تعلقات تھے لیکن مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر دونوں کے تعلقات میں تلخی در آئی۔ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کومقبوضہ کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب کوغیرفعالیت کا موردالزام ٹھہرایا اور بار بار اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی تعاون تنظیم کا ایک اجلاس بلائے جس کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا جائے اور بھارت پر دباؤ ڈالا جائے۔ پاکستان کے اس مطالبے سے تنگ آ کر سعودی قیادت نے پاکستان کو دیئے جانے والے 6.2ارب ڈالر قرض کی اقساط اور تیل کی فراہمی روک دی اور پہلے سے دیئے گئے 1ارب ڈالر وقت سے پہلے ہی واپس مانگ لیے۔رپورٹ کے مطابق اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے 17اگست کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔اس دورے سے چند دن پہلے ہی پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے کشمیر کے معاملے پر اسلامی تعاون تنظیم کے ردعمل کی تعریف کی۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان گزشتہ ہفتے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیںاور ہم مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔کشمیر کے معاملے پر ایک رائے پائی جا رہی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کو آگے آنا چاہیے تھا، بہرحال سعودی عرب کی اپنی ایک خارجہ پالیسی ہے۔ چنانچہ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ سعودی حکومت وہی کرے گی جو ہم چاہتے ہیں۔“

close