لاہور (پی این آئی) پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں گزشتہ کچھ دنوں سے اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ایسا اس وقت ہوا جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر سخت پالیسی اپنائی۔مسئلہ کشمیر پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے متنازعہ انٹرویو کے بعد سعودی عرب نے پاکستان سے تین ارب ڈالر
میں سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ واپس مانگ لیا۔پاکستان نے یہ قرضہ چین سے لے کر سعودی عرب کو ادا کیا۔تاہم اس پر بھی شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعودی معیشت اس وقت مشکل میں ہے اور انہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا، ہم ان کی مجبوری سمجھتے ہیں۔تاہم سینئر تجزیہ نگاروں کی اس بارے میں رائے مختلف ہے۔بعض سینئر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان پسند نہیں کیا۔سینئر صحافی رضوان رضوی نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے شاہ محمود قریشی کی قربانی مانگی ہے۔اب دیکھئے شاہ صاحب کی دوبارہ قربانی ہوتی ہے یا معافی ملتی ہے۔اسی حوالے سے مڈل ایسٹ مانیٹر نامی جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب پاکستانی وزیر خارجہ کے بیانات پر شدید برہم ہیں اور یہی بیانات تھے جو سعودی معاشی پیکیج کی اچانک معطلی کی وجہ بنے۔مزید لکھا کہ یہ سب پاکستان سعودی تعلقات میں بگاڑ کا ایک نیا سنگ میل ہے اور معاشی بحران سے نبرد آزما پاکستان کے لیے اس کے مضمرات دوررس ہونگے۔یہاں پر یہ بھی واضح ہو کہ پاکستان کی حکومت نے سعودی عرب کے دباؤ پر ایسے ممالک کے سربراہ اجلاس میں طے شدہ شرکت سے انکار کیا تھا جو کشمیر پر کھل کر پاکستان کا ساتھ دے رہے تھے۔وزیراعظم عمران خان اس اجلاس میں آخری لمحے پر شامل نہیں ہوئے۔جس کے بارے میں ترک صدر طیب اردگان اور خود وزیراعظم عمران خان نے قوم کھلا اظہار کیا۔ترکی ملائیشیا اور ایران کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت میں کئی بار بیانات دیے گئے۔تاہم عرب ممالک کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر اس سپورٹ کا اظہار نہیں کیا گیا جو کہ کیا جانا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا سعودی عرب کا اثر رسوخ او آئی سی پر بہت زیادہ ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اور اگر یہ نہ بلایا گیا تو پاکستان معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجائے گا۔پھر ان ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے گا جو کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کے ساتھ ہیں۔اس انٹرویو کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں خاصی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔جو پاکستان کی خارجہ پالیسی بدلنے کی طرف بھی اشارہ کر رہی تھی۔اسی دوران چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس دورے کے دوران ان کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات ہو گی جس میں یہ تمام باتیں زیر بحث آئیں گی۔خطے کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے آرمی چیف کے اس دورے کو بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں