اسلام آباد (پی این آئی) وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی میں سے ڈاکٹر ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس، جنہوں نے وفاقی کابینہ کو چھوڑ دیا ہے، صحت اور ڈیجیٹل پاکستان سے متعلق بالترتیب حقیقی ٹیکنو کریٹس میں سے ہیں,ہ ایدروس کو خالصتاً سیاسی وجوہات پر ہٹایا گیا جبکہ ڈاکٹر مرزا کو بڑی حد تک
کارکردگی کے باعث جانا پڑا۔ پیدائشی طور پر کینیڈین شہری اور سنگاپور میں مستقل رہائش رکھنے والی ایدروس جہانگیر ترین کی تلاش اور غیرمعمولی اوصاف کی حامل ہیں۔مقامی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایدروس کی برطرفی کے بعد ان کی گردش کرتی ہوئی وڈیو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ترین انہیں پاکستان لائے اور وزیر اعظم سے متعارف کرایا۔ اخباری ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے روز سے ہی با اثر بیوروکریٹس ایدروس کے معاون یا انہیں قبول کر نے والے نہیں تھے چونکہ انہیں ’ترین کے کیمپ‘ کا سمجھا جاتا تھا۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ درحقیقت ان میں سے ایک نے انہیں سختی سے کہا تھا کہ وہ ان کے دفتر کبھی نہ آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایدروس کو سائیڈ لائن کرنا ایک ناگزیر نتیجہ تھا جس پر ایک مرتبہ ترین نے وزیر اعظم اور ان کے اہم معاونین سے بحث کی تھی۔کووڈ 19 وبائی مرض سے ایدروس کے جانے میں تاخیر ہوئی چونکہ وہ شوکت خانم کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان کے تحت کورونا وائرس پر اعداد و شمار کے تجزیے پر تکنیکی ٹیم کی ورکنگ کا حصہ تھیں۔ یہ وہی اعداد و شمار ہیں جن پر نیشنل کمانڈ اور آپریشن سینٹر میں روزانہ کی بنیاد پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ سیاسی اور افسر شاہی کے جھگڑے نے ایدروس کو کبھی بھی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہونے نہیں دیا۔ڈیجیٹل پاکستان انیشی ایٹو شروع کرنے کیلئے انہیں بمشکل ہی سرکاری وسائل، عملہ یا آزاددفتر دیا گیا۔ ماہرین نے نشاندہی کی کہ سیکشن 42 کے تحت سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے ایدروس کی جانب سے رجسٹرڈ کمپنی ’ڈیجیٹل فاؤنڈیشن پاکستان‘ ان کی برطرفی کی وجہ نہیں چونکہ اس سے مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دلیل ان کی برطرفی کی اصل وجہ یعنی ترین رابطے کو چھپانے کے لئے دی گئی ہے۔عہدیداران کا کہنا تھا کہ کئی وزارتوں میں سیکشن 42 کی بہت سی کمپنیاں ہیں جو نجی عوامی شراکت داری کے ذریعے ترقیاتی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دراصل ترین سیکشن 42 کمپنیوں (جنہیں این جی اوز بھی کہا جاتا ہے) کے موجد ہیں۔ ڈاکٹر مرزا کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ کورونا وائرس نے ان کی روانگی میں بھی تاخیر کی۔ باخبر عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ انہیں فروری 2020 میں ہٹانے کا فیصلہ کیا جاچکا تھا۔ انٹیلی جینس ایجنسی کی جانب سے ڈاکٹر مرزا پر
دستاویزات کا پلندہ وزیر اعظم آفس کیلئے تیار کیا گیا تھا جس میں خراب کارکردگی، اقرباءپروری (جونیئر افسران کا سینئر عہدوں پر تقرر کرنا)، وزارت صحت میں ڈونر کے مالی اعانت سے چلنے والے مشیروں کا ایک بریگیڈ رکھنا وغیرہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق دستاویز میں وزارت صحت میں بیوروکریسی کے ساتھ ان کے غیر فعال تعلقات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز)، فیڈرل گورنمنٹ سروسز اسپتال اور اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری کی صحت سہولیات کیلئے مختص 11 ارب روپے کے ڈویلپمنٹ فنڈز مالی سال 2019-20 میں ختم ہوگئے۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی پیچیدہ صورتحال کے باعث حکومت کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ غیرفعال اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی بھی ان کی برطرفی کی وجہ بتائی جارہی ہے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ نوشروان برکی کی سربراہی میں وزیر اعظم ٹاسک فورس کے بھی ڈاکٹر مرزا سے کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک کووڈ 19 سے متعلق اہم فیصلوں کا تعلق ہے تو ڈاکٹر مرزا این سی او سی کے باعث غیر اہم گردانے گئے۔دواوں کی قیمتوں اور بھارت سے دوائیں درآمد کرنے سے متعلق اہم امور سے نمٹنا بھی ان کے خلاف چارج شیٹ کے اہم جزوکی حیثیت سے بتائے جارہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں