اسلام آباد(پی این آئی)مئی میں کورونا وائرس شدت سے کیوں پھیلا؟ حکومت حکمت عملی مرتب کرنے میں بالکل ناکام ہو گئی ، آنے والے دنوں کے حوالے سے تشویشناک خدشہ ظاہر کر دیا گیا….چار مئی کو پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، جو کووڈ-19 نمٹنے کے لیے بنائے جانے والے خصوصی
ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سے او سی) کی سربراہی بھی کر رہے ہیں، نے اسلام آباد میں ایک پریس بریفنگ دی۔وبا سے مقابلے میں حکومتی حکمت عملی کے روح رواں سمجھے جانے والے اسد عمر نے اس پریس بریفنگ میں بتایا کہ گذشتہ چند دنوں میں پاکستان میں کورونا وائرس سے اوسطاً 24 یومیہ اموات سامنے آئی ہیں اور یہ تعداد اسی تناسب سے بڑھتی گئی تو ایک ماہ میں 720 اموات ہو سکتی ہیں۔اس کے ساتھ انھوں نے کووڈ 19 سے ہونے والی اموات کا موازنہ پاکستان میں ٹریفک حادثوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی اوسط تعداد سے کیا اور منطق یہ دی کہ اوسطاً ساڑھے چار ہزار افراد کی ان حادثوں میں ہلاکت کے باوجود گاڑیوں کو سڑک پر چلنے کی اجازت ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو معاشرہ اور انسان زندگی پر اس کے بھاری اثرات پڑ سکتے ہیں جس کے باعث لوگ ایسا خطرہ لینے پر مجبور ہیں۔اُس روز تک پاکستان میں مجموعی 21 ہزار متاثرین کی شناخت ہوئی تھی اور 486 افراد کووڈ 19 کے مرض سے ہلاک ہو چکے تھے۔ تاہم اگلے 27 دنوں بعد یہ تعداد بڑھ کر 72 ہزار سے زیادہ متاثرین اور 1543 اموات تک جا پہنچی تھی۔وفاقی وزیر کے بیان کو اگر مئی کے 31 دنوں میں سامنے آنے والے مجموعی اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان میں آنے والے دنوں میں آثار اچھے نظر نہیں آتے۔حکومت نے گذشتہ دو ماہ میں مختلف مواقع پر ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے عروج کے بارے میں الگ الگ تاریخیں دی۔آخری بار پھر این سی او سی کے 30 مئی کو ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کووڈ 19 کی وبا کا عروج 15 جولائی کو ہوگا تاہم ٹوئٹر پر کی گئی یہ پوری تھریڈ بعد میں بغیر کسی وضاحت کے حذف کر دی گئی۔آنے والے دنوں میں یہ وبا کتنی تیزی سے پھیلے گی، اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ ملک میں اب تک کیا صورتحال ہے اور حکام نے اس کے لیے کیا کیا اقدامات لیے ہیں، اور ان کے نتائج کیا آئے ہیں۔فروری کے آخری ہفتے میں جب ایران سے واپس آنے والے کراچی کے نوجوان یحیٰی جعفری نے طبعیت کی ناسازی کے بعد آغا خان ہسپتال سے اپنا ٹیسٹ کرایا تو 26 فروری کو وہ پاکستان میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے پہلے مریض بن گئے۔اس کے بعد اگلے 96 دنوں میں پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیلا اور 31 مئی تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کُل 72460 متاثرین کے ساتھ دنیا میں کووڈ 19 کے تصدیق شدہ متاثرین کی تعداد کے
حوالے سے 18ویں نمبر پر تھا۔کووڈ 19 کی معلومات کے لیے تیار کی گئی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ملک میں 31 مئی تک 1543 افراد اس مرض کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھے تھے۔مجموعی طور پر پاکستان کے کل متاثرین میں سے 61 فیصد سے زیادہ وہ افراد تھے جن کی عمر 50 سال سے کم تھی تاہم ہلاک ہونے والوں میں سے 79 فیصد افراد کی عمر 50 برس سے زیادہ تھی اور متاثرین اور اموات، دونوں میں ہی اکثریت مردوں کی تھی۔اس اضافے میں جو سب سے پریشان کن بات سامنے آئی ہے وہ ہے پاکستان میں مقامی منتقلی کیسز کی تعداد میں اضافہ۔فروری اور مارچ میں پاکستان میں بیرون ملک سے آنے والے افراد اور تبلیغی جماعت کا اجتماع ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کا موجب بنا تھا مگر بعد میں مقامی منتقلی کی وجہ سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور اپریل ختم ہونے تک 84 فیصد اور مئی کے اختتام پر 92 فیصد یعنی تقریباً 67 ہزار متاثرین مقامی منتقلی کے تھے۔دوسری جانب کئی یورپی ممالک اور امریکہ کے مقابلے میں پاکستان میں صحت یابی کا تناسب بہتر نظر آیا اور کل متاثرین کا 36 فیصد یعنی 26 ہزار افراد اب تک صحتیاب ہو چکے ہیں۔پاکستان نے اپنی ٹیسٹنگ کرنے کی صلاحیت میں بھی ان 96 دنوں (26 فروری سے 31 مئی تک) میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے اور مارچ کے اختتام تک ملک میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 16 ہزار ٹیسٹ ہوئے تھے اور مئی کے اختتام تک یہ تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ 61 ہزار سے زیادہ ہو چکی تھی۔وزارت برائے قومی صحت کی جانب سے 31 مئی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں تقریباً ساڑھے چار ہزار مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں جن میں سے مجموعی طور پر 716 کی حالت تشویشناک ہے جن میں سے 215 کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہوا ہے۔جبکہ بقیہ 40 ہزار کے قریب وہ مریض ہیں جو اپنے اپنے گھروں میں خود ساختہ قرنطینہ یا سرکاری قرنطینہ میں وقت گزار رہے ہیں۔لاطینی امریکہ کے سب سے بڑے ملک برازیل میں پاکستان کی طرح پہلا مریض 26 فروری کو شناخت ہوا تھا اور پاکستان
کی طرح وہاں پہلی ہلاکت 18 مارچ کو ہوئی۔لیکن اس کے بعد وہاں حالات تیزی سے خراب ہوتے گئے اور اس وقت برازیل دنیا میں سب زیادہ سے متاثرہ مریضوں کے حوالے سے دوسرے (526000 سے زیادہ) اور اموات کے اعتبار سے چوتھے (29 ہزار سے زیادہ) نمبر پر ہے۔اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں متاثرین کی تعداد میں اضافہ قدرے تیزی سے ہونے کے باوجود خوش قسمتی سے اموات کی شرح ابھی تک صرف 2.12 ہے جبکہ عالمی طور پر شرح اموات تقریباً چھ فیصد ہے۔اپریل کے اختتام پر پاکستان میں 359 اموات تھیں جبکہ اگلے 31 دنوں میں پاکستان میں یومیہ 37 اموات کی اوسط سے کل 1158 اموات ہوئیں جن میں سے مئی کی 30 تاریخ کو ریکارڈ 88 ہلاکتیں درج کی گئیں۔اسی طرح 16 ہزار کُل متاثرین کے ساتھ مئی کا مہینہ شروع ہوا تو ختم ہوتے ہوتے یومیہ 1800 نئے متاثرین کی اوسط کے ساتھ صرف ان 31 دنوں میں 55643 نئے متاثرین سامنے آئے۔اپریل کے پہلے ہفتے میں وفاقی وزیر اسد عمر اور وزیراعظم عمران خان کے مشیر خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، دونوں کا کہنا تھا کہ مئی کے آغاز تک پاکستان میں یومیہ ٹیسٹس کی صلاحیت 20 سے 25 ہزار تک پہنچا دی جائے گی۔تاہم سرکاری اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ پاکستان میں مئی کے آخر تک کسی بھی دن 16 ہزار سے زیادہ ٹیسٹس نہیں ہوئے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وبا سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کرنا اہم ترین اقدامات میں سے ایک ہے۔صرف مئی کے مہینے میں ٹیسٹس کی کُل تعداد 375862 ہے جو کہ اوسطاً فی دن 12 ہزار ٹیسٹس کے لگ بھگ بنتا ہے۔ گویا مئی کے مہینے میں پاکستان کا انفیکشن ریٹ 14.80 رہا یعنی ہر سو ٹیسٹس پر تقریباً 15 مریضوں کی شناخت ہوئی۔واضح رہے کہ اسد عمر کا مئی میں ایک بیان سامنے آیا تھا جس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یومیہ 30 ہزار ٹیسٹس کافی ہوں گے۔اگر مئی کے مہینے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو پاکستان میں متاثرین اور اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد اور
حکومتی حکمت عملی کے درمیان ایک ربط نظر آتا ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا وائرس سے نپٹنے کی مرکزی ذمہ داری نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کو سونپی گئی ہے جس نے 31 مئی کو با ضابطہ طور پر ‘لِوونگ وِد دا پینڈیمک’ یعنی وبا کے ساتھ ہی رہنا ہے کو بطور حکمت عملی اپنایا ہے۔اس سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے متعدد مواقع پر زور دیا کہ پاکستان میں کووڈ 19 کا پھیلاؤ نہیں رکے گا اور ‘ہمیں اب اسی کے ساتھ گزارا کرنا ہے ‘ اور ملک میں پھیلی ہوئی غربت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کاروباری سرگرمیاں بحال ہونی چاہیے اور لاک ڈاؤن ختم ہونا چاہیے۔مئی کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس سے مقابلے کے لیے ‘سیلف بیلیف’ یعنی خود پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ضروری ہے اور پھر سات مئی کو میڈیا بریفنگ میں لاک ڈاؤن کو مزید نرم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان پہلے دس دنوں کے دوران پاکستان میں یومیہ کورونا متاثرین، یومیہ اموات اور یومیہ ٹیسٹنگ میں اوسطاً 1400، 28 اور دس ہزار کا بالترتیب اضافہ ہوا۔خیال رہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں اکثر علامات دو سے تین ہفتوں میں سامنے آتی ہیں اور کئی ایسے بھی متاثرین ہیں جنھیں کسی قسم کی کوئی علامات نہیں ہیں۔مئی کی 11 سے 20 تاریخ تک دوران ایک بار پھر وزیر اعظم نے اپنے بیان کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ غربت و افلاس کورونا سے زیادہ بری ہے اور اب قوم کو اس وائرس کے ساتھ ہی رہنا ہو گا۔اسی عرصے میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بھی مختلف مواقعوں پر ملک کے دیگر حصوں میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث کاروباری
سرگرمیوں اور شاپنگ مالز کے بند ہونے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انھیں بحال کرنے کا بھی حکم دیا۔ان دس دنوں کے دوران یومیہ 1700 نئے متاثرین، یومیہ 35 اموات اور یومیہ 13 ہزار ٹیسٹس کی اوسط دیکھنے میں آئی۔اور اس مہینے کے آخری دس دنوں میں گذشتہ اقدامات کا نتیجہ سامنے آیا اور پاکستان میں یومیہ اموات کا اوسط بڑھ کر 48 ہو گیا اور اوسط یومیہ متاثرین کی تعداد بھی 2200 سے بڑھ گئی۔ بالخصوص عید الفطر کی چھٹیوں کے بعد صرف مہینے کے آخری چار دنوں میں 283 اموات ریکارڈ کی گئیں۔وزیر اعظم کی جانب سے اپریل اور پھر مئی میں کم از کم پانچ مرتبہ واضح طور پر لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے یا کبھی ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی حکمت عملی اپنانے کے حوالے سے دیے گئے مختلف بیانات کے باعث ایک ابہام سا پیدا ہو گیا کہ آیا ملک میں لاک ڈاؤن ہے بھی یا نہیں۔اس بارے میں جب بی بی سی نے وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے کورونا وائرس ڈاکٹر فیصل سلطان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’باضابطہ اعلان تو این سی او سی کے سربراہ دے سکتے ہیں تاہم سادہ لفظوں میں کہیں تو اس وقت کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے۔‘ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دانشمندی کے ساتھ ایسے فیصلے کیے جائیں جو اس مرض کے پھیلاؤ کو روک سکیں جیسے ماسک پہننا، یا مجمع والی جگہ جانے سے گریز کرنا۔اگر پاکستان کے مختلف حصوں کی بات کی جائے تو آبادی اور وسائل کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جہاں اب تک مجموعی طر پر سب سے زیادہ متاثرین کی تشخیص ہو چکی ہے اور کُل اموات کے لحاظ سے وہ دوسرے نمبر پر ہے۔مئی کے مہینے میں پنجاب حکومت کی سب سے اہم پیشرفت ان کی ٹیسٹنگ صلاحیت میں اضافہ کرنا تھا اور
تقریباً پانچ ہزار یومیہ ٹیسٹنگ کی اوسط کی مدد سے انھوں نے مجموعی طور پر 153954 ٹیسٹس کیے جس سے 19900 مریضوں کی شناخت ہوئی۔اموات کے اعتبار سے بھی مئی میں سب سے زیادہ تعداد وہیں سامنے آئی جو کہ 391 تھی جبکہ شرح اموات 1.96 رہا تاہم اگر آبادی کے تناسب سے کارکردگی کو دیکھا جائے تو خیبر پختون خوا میں صورتحال کافی گھمبیر رہی ہے۔مئی کے آخری دنوں تک خیبر پختون خوا مجموعی اموات کے اعتبار سے سب سے آگے تھا اور ان 31 دنوں میں صوبے میں 4.41 کی شرح سے کُل 327 اموات واقع ہوئیں۔ٹیسٹنگ کی صلاحیت کے اعتبار سے صوبہ خاطر خواہ بہتری نہیں دکھا سکا اور صرف 42 ہزار ٹیسٹ کیے گئے جو کہ اوسطاً 1300 ٹیسٹس فی دن بنتا ہے اور اس کے باوجود مئی میں 7400 نئے متاثرین کی شناخت ہو سکی جو کہ 17.41 انفیکشن ریٹ بنتا ہے۔پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے دوسرے سب سے بڑے صوبے سندھ، جہاں ملک کا سب سے پہلا مریض سامنے آیا تھا، میں مئی کے اختتام تک کُل 28245 مریضوں کی تشخیص ہوئی تھی۔تاہم سندھ میں خوش قسمتی سے صحتیاب ہونے والے افراد کا کُل تناسب تقریباً 50 فیصد ہے جو کہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بعد سب سے زیادہ ہے اور بقیہ علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔اسی طرح مئی میں سندھ سے 369 اموات ریکارڈ کی گئیں جو کہ شرح اموات کے حساب سے 1.66 بنتا ہے۔کل متاثرین دیکھیں تو مئی میں 22192 مریض سامنے آئے جن کی شناخت کے لیے 126429 ٹیسٹس کیے گئے گویا انفیکشن ریٹ 17.55 رہا اور فی دن ٹیسٹنگ کی اوسط چار ہزار ٹیسٹس رہی۔تاہم مجموعی اعتبار سے دیکھیں تو سرکاری اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ کسی ایک شہر میں سب سے زیادہ متاثرین کراچی میں ہیں جو کہ کل تعداد کا 33 فیصد بنتا ہے۔حکومت سندھ کی جانب سے جاری کی گئی پہلی جون کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں اب تک کُل 21 ہزار سے زیادہ متاثرین سامنے آ چکے ہیں۔ادھر
بلوچستان کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ وہ صوبہ جہاں سے پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا زائرین کے وطن واپسی کے بعد بڑے پیمانہ پر پھیلی، وہاں مئی کے مہینے میں 34 اموات ریکارڈ کی گئی جو کہ 1.01 شرح اموات ہے۔لیکن یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ 28 مئی سے صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ دستاویز میں ہلاکتوں کے بارے میں دو مختلف تعداد دی جا رہی تھیں، ایک مصدقہ اور دوسری غیر مصدقہ تاہم مئی میں کیے گئے ٹیسٹس کی تعداد صرف 14445 رہی جو کہ ساڑھے چار سو ٹیسٹس یومیہ اوسط بنتا ہے۔کوئٹہ شہر میں سب سے زیادہ متاثرین سامنے آئے ہیں جن میں سے مقامی منتقلی کے مریض 85 فیصد سے زیادہ ہیں۔کیا وبا کے خلاف بنائی گئی حکمت عملی اب تک مؤثر ہے؟پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ واضح مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک میں وبا کی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے اور اسد عمر تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کے وژن کو تو دنیا کے دیگر ممالک بھی اپنا رہے ہیں لیکن اعداد و شمار کی روشنی میں کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ کیا ہے؟اس بارے میں جب ڈاکٹر فیصل سلطان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ اس وقت کامیابی کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ بحرانی کیفیت میں فوری اقدامات اور طویل مدتی اقدامات دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔’ہم آج کہاں پر ہیں؟ سب سے قابل قبول صورتحال تو وہ ہوتی کہ ہمارے ملک میں اس وبا کے متاثرین کی تعداد صفر ہوتی لیکن اس جیسی وبا کے سامنے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کوشش یہ ہوتی ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کو روکا جائے، صحت کے نظام کو تباہ ہونے سے بچایا جائے اور معمول کی زندگی کم سے کم متاثر ہو۔‘ڈاکٹر فیصل کا مؤقف تھا کہ یہ واضح ہے کہ پاکستان میں وبا کے پھیلاؤ کی رفتار دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں واضح طور پر ک
م ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صحت کے نظام کو بھی دیکھیں تو دشواری ضرور ہے لیکن ابھی بھی حالات مکمل طور پر مخدوش نہیں ہوئے ہیں۔لیکن دوسری جانب صحت پر کام کرنے والے تھنک ٹینک ’ہارٹ فائل‘ کے سینئیر محقق اور سماجی کارکن عمار رشید نے حکومت پاکستان کی مجموعی اور بالخصوص مئی کی حکمت عملی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔عمار رشید کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نے ماہرین صحت کے مشورے پر عمل نہیں کیا اور جلد بازی دکھائی جس کے نتیجے میں آج جنوبی ایشیا میں فی کس اموات کے تناسب سے پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔’بات صرف یہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں اتنی زیادہ اموات ہیں۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومت کی کوئی بھی حکمت عملی اور پیغامات کی مہم سائنس پر مبنی نہیں ہے۔‘عمار کے مطابق نہ صرف وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کی وبا کو سنگین معاملہ نہیں سمجھا اور نہ ہی عوام کو درست خبر اور درست معلومات فراہم کیں۔’عمران خان نے پاکستان کا صرف ان ممالک سے موازنہ کیا ہے جہاں بدترین صورتحال تھی لیکن انھوں نے ایک بار بھی ایسے ملک کا ذکر نہیں کیا جن کا محل و وقوع، جغرافیہ اور مجموعی ملکی پیداوار پاکستان کے مماثلت رکھتی ہے لیکن وہاں درست حکمت عملی کے باعث وبا پر قابو پا لیا گیا ہے۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں