پردیسیوں کیلئے بڑی خوشخبری، عید اپنوں میں منائیں گے، پاکستان نےعید سے قبل بیرون ملک سے اپنے شہریوں کو وطن واپس لانے کا اعلان کر دیا

اسلام آباد (پی این آئی) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ ایک ہفتے میں 11 سے 12 ہزار افراد کو واپس لایا جائے گا۔ وزیراعظم کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ اب تک بیرون ملک پھنسے 23 ہزار سے پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جاچکا ہے۔وزیراعظم

کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ ہم نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے جس کے تحت فوری طور پر مسافروں کا ٹیسٹ کیا جائے گا اور ٹیسٹ کے لیے 48 قرنطینہ کی شرط ختم کردی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اب ایک ہفتے میں کورونا وائرس کے باعث بیرون ملک پھنسے 11 ہزار سے 12 ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پالیسی میں تبدیلی سے وطن پہنچنے والے مسافروں کی ٹیسٹنگ میں اضافہ ہوگا۔معید یوسف نے کہا کہ 48 گھنٹے قرنطینہ کی شرط ختم کردی گئی ہے لیکن وطن واپس آنے والے افراد کو ایک یا 2 دن قرنطینہ میں رہنا ہوگا کیونکہ ہم اب لیبارٹریز کی صلاحیت بڑھارہے ہیں تو مسافروں کو انتظار کرنا پڑے گا۔وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ جب کورونا کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو ہم نے روزمرہ کی اشیا اور ادویات کی دکانیں کھولی تھیں اس کے بعد اگلے مرحلے میں تعمیراتی صنعت کے فیز ون میں کچھ صنعتیں کھولیں۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ اس کے 3 ہفتے بعد ہم نے تعمیراتی صنعت کا دوسرا فیز کھولا گیا تھا۔حماد اظہر نے کہا کہ صوبائی صنعتوں کے وزیر کے ساتھ مشاورت کے بعد متفقہ فیصلہ کیا ہے کارساز صنعت اور ان کے شورومز، موٹر سائیکل اور سائیکل بنانے والے کارخانے اور دکانوں کو 18 مئی (پیر) سے کھولا جائے گا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت گندم کی کٹائی چل رہی ہے یہ مذکورہ صنعت کی فروخت کے عروج کا وقت ہے، ہم نے اس حوالے سے بات چیت کی ہے اور سخت ایس او پیز کے ساتھ تمام صوبوں اور اکائیوں نے آٹو مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اکثر صوبوں کا خیال ہے کہ شاپنگ مالز کھولنے کی اجازت دینی چاہیے کیونکہ ان کے داخلی اور خارجی راستے موجود ہیں اور زیادہ بہتر ماحول ہوتا ہیجہاں سخت ایس او پیز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے بڑے شاپنگ مالز کھولنے کا فیصلہ صوبوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنے مالز کی نوعیت دیکھ کر خود فیصلہ کریں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close