لاہور(پی این آئی)معروف کالم نگار اور سینئر تجزیہ نگار اوریا مقبول جان نے کہا ہے کہ معاشرے کو بے راہروی اور خراب کرنے والی چیزوں پر تنقید کروں تو میرے خلاف کمپیئن شروع ہو جاتی ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ میری صرف ایک ملاقات ہوئی ہے،جمہوریت بنیادی طور پر آمریت کی ایک کچلی ہوئی
شکل ہے،عمران خان کو اس لئے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ایسے لوگوں کو سلیکٹ کیا جنہیں پاکستان کی الف بے کا بھی نہیں پتا تھا،میں ایک شاعر آدمی ہوں اور شاعر کبھی اکھڑ مزاج نہیں ہوتا ، میں نے اپنی 31 سالہ سرکاری نوکری میں کبھی ایک پلاٹ بھی حاصل نہیں کیا ۔تفصیلات کے مطابق معروف صحافی اور نجی ٹی وی کے ایگزیکٹو پرڈیوسر رضوان جرال کے یو ٹیوب چینل کو دیئے جانے والے انٹرویو میں معروف تجزیہ کار اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر میرا تاثر بنایا گیا ہے ،گذشتہ آٹھ دس سال کے دوران میرے خلاف ایک خاص قسم کا پراپیگنڈا کیا گیا کہ یہ بہت سخت مزاج آدمی ہے اور اس کے اندر کوئی “حس لطیف “قسم کی چیز نہیں ،یہ ایک ایسا شخص ہے جو کسی طور پر ایک کٹھ ملا قسم کی چیز ہے اور نہ ہی اس کے اندر جمالیات ہے ،آپ خود سوچیں کہ جس شخص نے آٹھویں جماعت کے اندر شاعری لکھنی شروع کی اور 1988 میں جس شخص کا پہلا شاعری کا مجموعہ آیا ،جس کی شاعری کو پاکستان کی آٹھ دس خواتین جن میں حمیراچنا،شاہدہ پروین اوردیگر نےگایاہو ،جس شخص نےسترہ سال ڈرامہ لکھاہو،جس نے ڈرامے میں ایکٹنگ کی ہو ،جس شخص نے اپنی زندگی کے پچیس تیس سال مشاعرے پڑھے ہوں ،کیا رومانٹک اور شاعر آدمی اکھڑہو سکتا ہے؟مسئلہ یہ ہےکہ جب میں کبھی کبھی ایسی چیزوں پرتنقیدکرتاہوں جس نےہمارے معاشرے کو بے راہ رو اور خراب کر دیا ہے تو پھر میرے خلاف کمپئن شروع ہو جاتی ہے،جب سے میرے خلاف کمپئن شروع کی گئی ہے،اُسوقت سےلیکرابتک میری شاعری کاکوئی ذکرنہیں کرتا،میرےڈرامےکاکوئی ذکرنہیں کرتا،مجھےمشاعرےمیں نہیں بلایاجاتا،باقاعدہ میرے خلاف پراپیگنڈاشروع کیاگیاکہ جوشخص دین کاطالب اوردین کی راہ پرچلےگاتواس سے زیادہ تو کوئی خشک آدمی ہو ہی نہیں سکتا،حالانکہ اگرمیری ذاتی زندگی اوردوستوں کو دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہے۔اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت بنیادی طور پر آمریت کی ایک کچلی ہوئی شکل ہے،اس کو ہم کہتے ہیں کہ اکثریت کی آمریت،میں بنیادی طورپر جمہوری نظام کو اس لئے سپورٹ نہیں کرتا کہ کارپوریٹ کلچر نےاپنے ایجنڈے کو نفاذ کے لئے بنایا ہے،میں سمجھتا تھا کہ باقی سیاسی لیڈر شپ کے مقابلے میں عمران خان کی نیت ٹھیک ہےاور اس کے پیچھے کرپشن کا بیگج نہیں ہے،میں نے عمران خان کو سپورٹ تو نہیں کیا لیکن ایک سافٹ کارنر تھا ،باقی دونوں پارٹیوں کے ساتھ میں نے کام کیا ہوا تھا ،ضیاالحق کے دور میں جونیجو کی حکومت میں ،میں نے سول سروس جوائن کی ، اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت دیکھی ،اس کے بعد نواز شریف کی حکومت دیکھی،پھر بے نظیر کی حکومت دیکھی ،پھر نواز شریف کی حکومت دیکھی ،پھر شہباز شریف پھر مشرف اور پھر زرداری کے دورحکومت میں 2016 میں ،میں ریٹائرڈ ہوا ،میں سمجھتا تھا کہ ایک ایماندار آدمی پاکستان کی قسمت بدل سکتا ہے لیکن عمران خان کو اس لئے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ایسے لوگوں کو سلیکٹ کیا جنہیں پاکستان کی الف بے کا بھی نہیں پتا تھا ،یہ وہ لوگ تھے جو باہر سے آتے تھے اور پاکستان میں اپنا
سیناٹائزر اور منرل واٹربھی ساتھ لاتے تھے ،پاکستان میں اپنا جنریٹر بھی لگاتے تھے اور پندرہ یہاں رہنے اور پاکستان اور اس کے نظام کو گالیاں دینے کے بعد واپس چلے جاتے تھے ،وہ لوگ آج عمران خان کے مشیر ہیں ۔اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ،میرے پاس تو توفیق ہی نہیں تھی کہ میں اپنے بچوں کو باہر پڑھاتا ،اللہ کا بڑا کرم ہے کہ میری بیوی اور بچوں نے میرا بڑا ساتھ دیا اور میری حلال آمدن پر گذارا کیا ورنہ میرے سارے ساتھ کام کرنے والوں کے بچے توانگلینڈ،امریکہ اور آسٹریلیا میں پڑھے ہوئے ہیں،میرا بیٹا لمز کا گرایجویٹ ہے،ایک سال کے لئے پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے اسے انگلینٖڈ میں ٹریننگ کے لئے پوسٹ کیا تھا ،ٹریننگ کر کے وہ پاکستان واپس آ گیا ،میری دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور شادی کے بعد جہاں اُن کا میاں چاہے گا وہیں پر وہ رہیں گی میں انہیں کیسے روک سکتا ہوں؟ایک سوال کےجواب میں اُنہوں نےکہاکہ میں نے اپنی31 سالہ سرکاری نوکری میں کبھی ایک پلاٹ بھی حاصل نہیں کیا ۔ایک اور سوال کے جوان میں اوریا مقبول جان نے کہا کہ جنرل باجوہ کے بارے میں لکھے جانے والا کالم میرے پاس ایک امانت تھی جو میں نے بیان کی،جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ میری صرف ایک ملاقات ہوئی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں