لندن(پی این آئی) موت کے وقت انسان میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟
ہزاروں مریضوں کی موت اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھنے والی برطانوی ڈاکٹر کیتھرین مینکس نے اس سوال کا چشم کشا جواب دیا ہے۔ 64سالہ ڈاکٹر کیتھرین 30سال تک ہسپتال کے پلی ایٹو کیئر میں فرائض سرانجام دیتی رہیں، جہاں قریب المرگ لوگوں کو رکھاجاتا ہے اورانہیں ایسی ادویات دی جاتی ہیں تاکہ وہ زندگی کے آخری ایام نسبتاً سکون سے گزار سکیں۔
ڈاکٹر کیتھرین نے مرتے ہوئے انسان کو ایسے پرانے موبائل فون سے تشبیہ دی ہے جس کی بیٹری چارج ہونا چھوڑ دے۔ وہ بتاتی ہیں کہ موت کے قریب پہنچ کر بہت سے لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی ذہنی حالت نہیں ہوتی کہ جس سے خوفزدہ ہوا جائے بلکہ یہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ مرنے والے شخص کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا یا اسے کسی طرح کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر کیتھرین بتاتی ہیں کہ موت کے قریب پہنچ کر جسم میں جو سب سے پہلی بات مشاہدہ کی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ جسم میں توانائی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور نئی توانائی ملنا بند ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح، جیسے کسی پرانے موبائل فون کی بیٹری تیزی سے ختم ہو رہی ہو اور اس فون میں خرابی کی وجہ سے آپ بیٹری چارج بھی نہ کر سکتے ہوں۔قریب المرگ لوگوں کو زیادہ بھوک بھی نہیں لگتی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی موت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں بلکہ وہ اس لیے کھانا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کی موت ہو رہی ہوتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتاجاتا ہے، قریب المرگ شخص کو زیادہ نیند آنے لگتی ہے اور بالآخر آدمی نہ صرف گہری نیند میں ہوتا ہے بلکہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ یہ آدمی کے آخری لمحات ہوتے ہیں، جو وہ دنیا سے اور اپنے آپ سے بیگانگی میں گزارتا ہے۔ ان آخری لمحات میں آدمی بہت دھیمے سانس لینے لگتا ہے اور آخر میں وہ ایک سانس باہر نکالتا ہے، جس کے بعد وہ دوبارہ سانس نہیں لیتا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں