موت ایک تلخ حقیقت ہے۔ جس کا ذائقہ ہر بشر کو چکھنا ہے۔ موت کے بعد انسان قبرستان کا باسی بن جاتا ہے۔ اس کا گھر قبرستان میں قبر کی صورت میں بنا دیا جاتا ہے۔ قبرستان جسے شہرِ خموشاں کہتے ہیں، اپنے اندر ایسے مکینوں کو رکھتا ہے جن کا جسم اس زمین میں، روح خُدا کے پاس اور اس کی یادیں اس کے پیاروں کے پاس ہوتی ہیں۔
ہمارا کوئی پیارا بچھڑ جائے تو اس کو قبرستان میں دفنا کرکے آ جاتے ہیں۔ کیسا محسوس ہوگا آپ کو کہ جب آپ کو پتہ چلے کہ جس قبر میں آپ نے اپنے پیارے کو دفنایا تھا اس پر اب کسی دوسرے مردے کی قبر بن چکی ہے؟ یقیناً یہ ایک دلخراش لمحہ ہوگا۔ نجی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے سب سے بڑے قبرستان یعنی پی سی ایچ ایس میں واقع قبرستان میں اب زیادہ تر قبروں کے اوپر قبریں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ وہ قبرستان اس قدر بھر چکا ہے کہ وہاں نئی یعنی فریش قبر کے تعمیر ہونے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
قبرستان کے گورکن نے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ” ایک قبر ٹوٹے گی تو دوسری تیار ہوگی، زیادہ تر قبروں کے اوپر دوسری قبریں تعمیر ہیں، ان قبروں میں ایک سے زائد مردے موجود ہیں۔ ہم بھی کیا کریں، لوگ ہمیں قبر کھودنے اور بنانے کے منہ مانگے پیسے دیتے ہیں جس پر ہم بنا دیتے ہیں۔ پورے کراچی میں تدفین کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسی بھی قبرستان میں نئی قبر کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ”
کے ایم سی کے ترجمان علی حسن ساجد کہتے ہیں کہ: ” بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے۔ شہر بھر میں قبرستانوں کا اب تک وہی ڈھانچہ ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت تھا۔ لوگ اپنے پیاروں کو خاندان والوں کے ساتھ دفن کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اسی وجہ سے گورکنوں کو دگنی قیمت بھی دیتے ہیں جو غلط ہے، اسی وجہ سے گورکنوں کا لالچ بڑھ چکا ہے۔ کراچی میں 2021 میں ایک قبر بنانے اور تدفین کے لیے 35 ہزار روپے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی تھی جس سے یہ واضح ہے کہ اب گورکن کا کام بھی بڑی تجارت بن چکا ہے۔ ”
اگر بروقت حکومت اور انتظامیہ نے اس مسئلے پر اپنی توجہ مرکوز نہ کی اور کوئی خاطرخواہ حکمتِ عملی نہ اپنائی تو یقیناً شہر کا حال بد سے بدتر ہو جائے گا۔ ہمیں یہ خیال کرنا چاہیے کہ جہاں شہر کی آبادی بڑھ رہی ہے وہیں مرنے والوں کی تعداد میں بھی دگنا اضافہ ہو رہا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں