اسلام آباد(پی این آئی)کورونا وائرس کی وبا کو اب 2 سال مکمل ہورہے ہیں مگر اب بھی اس بیماری کے بارے میں کافی کچھ معلوم نہیں ہوسکا اور مریضوں میں بننے والی اینٹی باڈیز کے حوالے سے بھی کافی کچھ جاننا باقی ہے۔جیسے ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کا مدافعتی نظام کتنے عرصے تک اینٹی باڈیز بناتا ہے۔اب ایک نئی تحقیق میں اس کا جواب کسی حد تک دیا گیا ہے۔
ایک اچھی خبر تو یہ ہے کہ بیماری سے متاثر افراد میں صحتیابی کے بعد وائرس کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 10 مہینے تک موجود ہوتی ہیں۔برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے مگر وائرل ذرات اور متعدی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے 10 ماہ بعد دریافت ہوسکتی ہیں۔اس تحقیق میں 38 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متثر ہوئے تھے۔ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔اس تحقیق میں شامل کچھ ماہرین کی ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی سطح بیماری کے 3 سے 5 ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے، مگر اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ 3 ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔
اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں 10 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔انہوں نے کورونا کی مختلف اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی حاصل کیے، یعنی جو مریض کورونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے، ان کو بھی زکورونا کی زیادہ متعدی اقسام کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی سرگرمی ایلفا، گیما اور بیٹا کے خلاف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خلاف ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خلاف گھٹ جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی ویکسینز سے بھی نئی اقسم کے خلاف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر مائیکرو بائیولوجی میں شائع ہوئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں