دمہ سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ دمہ کے مریضوں کیلئے خصوصی ہدایات

دنیا میں ہرسال ڈھائی لاکھ افراد کو لقمہ اجل بنانے والا ’دمہ‘ قابل علاج ہے اور ماہرین طب کے مطابق تھوڑی سی توجہ دے کر اس جان لیوا مرض پہ قابو پایا جاسکتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق دنیا میں تقریباً 30 کروڑ افراد دمہ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا سات فیصد (ڈیڑھ کروڑ) دمہ کے مرض کا شکار ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہرسال عوام الناس کو آگاہی دلانے کے لیے’دمہ کا عالمی دن‘منایا جاتا ہے تاکہ مریضوں کو مرض کے متعلق بتایاجاسکے۔عالمی سطح پر ہر مئی کے پہلے منگل کے دن دمہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کی ابتدا 1998 میں ہوئی تھی۔کنسلٹنٹ پلمونولوجسٹ (ماہر امراض پھیپھڑا) ڈاکٹر جاوید حیات خان کا کہنا ہے کہ دمہ قابل علاج مرض ہے اورآج کے ترقی یافتہ دور میں کسی بھی مریض کی جان اس مرض میں نہیں جانی چاہیے۔دمہ کا عالمی دن ہر سال ایک منفرد تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال دمہ کے عالمی دن کی تھیم ‘دمہ کا علاج، کل نہیں آج’ ہے۔
اس تھیم کا مقصد لوگوں میں یہ آگاہی اور شعور بیدار کرنا ہے کہ دمہ کی تشخیص اورعلاج میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔دمہ کے علاج کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ جیسے ہی اس کی علامات ظاہر ہوں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔دمہ کے عالمی دن کے موقع پر ’تھیم‘ کا انتخاب گلوبل انیشیٹو فار ایزما (Global Initiative for Asthma) کرتا ہے۔دمہ سانس کی بیماری ہے جسے طبی زبان میں ایزما (Asthma) کہا جاتا ہے۔میڈیکل سائنس میں کہا جاتا ہے کہ دمہ پھیپھڑوں کی دائمی بیماری ہے۔ اس میں سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اور مریض کوسانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔اس بیماری میں بنیادی طور پرپھیپھڑوں کی دوبڑی نالیاں جو سانس لینے میں مددگار ہوتی ہیں سوجن کا شکار ہو جاتی ہیں۔دمہ عمومی طور پر کسی الرجی کے ردعمل یا دیگر امراض کے باعث زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ یہ مرض مؤروثی بھی ہوتا ہے۔تھوڑی سی حرکت سے سانس پھول جانا اوربحال ہونے میں بہت وقت لگنا۔سینے کی جکڑن۔سانس لینے میں تکلیف۔سانس لینے کے دوران ’سیٹی‘ کی آواز آنا۔کھانسی۔سینے کے انفیکشن کا باربار ہونا۔دوران نیند بے چینی۔رات اور صبح کے اوقات میں ان علامات میں زیادتی ہونا۔دمہ سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟چھوٹی چھوٹی چیزوں میں احتیاط کرکے اس دائمی بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔سگریٹ نوشی سے گریز کیا جائے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھا جائے جو سگریٹ نوشی کر رہے ہوں۔پالتو جانوروں کوبستراورفرنیچرسے دوررکھیں۔اپنے تکیے اور بستر کوجراثیم سے بچانے کے لیے باقاعدگی سے دھوئیں۔بیڈ رومزمیں قالین بچھانے سے اجتناب برتیں۔گھرکی صفائی میں کیمیکل اوربلیچ کے استعمال سے گریز کریں۔پریشانیوں اورذہنی تناؤ سے جتنا ممکن ہو دور رہیں۔ یہ سانس کے مرض کی بڑی وجوہات بن سکتی ہیں۔دمہ کے علاج میں ہوا کی نالیوں کو کشادہ کرنے والی ادویات کا استعمال سب سے مؤثر طریقہ مانا جاتا ہے۔ فوری علاج کے لیے ان ادویات کو براہ راست ہوا کی نالیوں اور پھیپھڑوں تک پہنچایا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے انہیلراورنیبولائزرکا استعمال کیا جاتا ہے۔بلغم نکالنے والی اوراینٹی الرجی ادویات بھی دمہ کے علاج میں بہت مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔چھ ماہ کی ویکسین کے کورس کے ذریعے بھی دمہ کا علاج کیا جاتا ہے لیکن اس طریقہ علاج سے 100 فی صد نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔یوگا بھی دمہ کے علاج کا لیے ایک مؤثر طریقہ تصور کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں