ملتان کے واجدعلی نے مفتی محمد شبیر قادری سے سوال کیاکہ السلام علیکم! کیا فرما تے ہیں علمائے دین کہ گواہوں کی موجودگی میں ایک شخص نے جھوٹا طلاق نامہ لکھا یا لکھوایا جس میں گھریلو جھگڑے کی وجوہات کے بعد صریح الفاظ میں درج تھا کہ: ‘میں فلاں بن فلاں بقائمی ہوش و حواس، بلا جبر و اکرہ اپنی بیوی ( نام لکھ کر) کو سہ بار طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں اور اپنی زوجیت سےمنقطع ہو گئے ہیں روبرو گواہوں کے تحریر کر دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے‘ مذکورہ شخص نے یہ طلاق نامہ پکے اشٹام پیپر پر لکھوا کر رکھ لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ محض عدالتی کاروائی سے بچنے کے لیے وکیل کے کہنے پر لکھوایا گیا تھا جو کہ میاں بیوی صلح ہوجانے کی وجہ سے بیوی کو نہیں بھجوایا۔ یہ بھی دعوی کیا کہ اس طلاق نامہ کے علاوہ علیحدہ کاغذ پر حلف نامہ لکھا گیا تھا کہ جو اشٹام پیپر پر طلاق نامہ لکھا جا رہا ہے یہ محض ڈرانے دھمکانے یا عدالتی کاروائی سے بچنے کے لیے وکیل کے کہنے پر لکھا جارہا ہے۔ دل سے کوئی ارادہ نہیں ہے۔ کیا اس طرح کرنا درست ہے اور صریح الفاظ میں طلاق نامہ تیار کروانا اور پھر اس پر اپنے دستخط اور انگوٹھا لگانا اور گواہوں کے بھی دستخط اور انگوٹھے لگوانا پھر اپنے پاس محفوظ کر لینا شرعی لحاظ سے درست ہے؟ کیا اس طرح طلاق ہو جائے گی؟ کیا یہ صورت فلم یا ڈرامہ میں طلاق دینے والی صورت کے مترادف ہے؟ جبکہ یہ ساری صورت حال کے بارے گواہوں سے پوچھنے پر گواہ یہ کہیں کہ انھیں صرف اتنا یاد ہے کہ انھوں نے طلاق نامے والے اشٹام پیپر پر بطور گواہ دستخط کئے تھے اس کے علاوہ وہ 14 سال پرانی بات ہے بھول چکے ہیں کیوں کہ یہ طلاق نامہ اب چودہ سال بعد سائل کے ہاتھ لگا ہے اور سائل نے طلاق دینے والے شخص سے پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ طلاق نامہ اسی نے تیار کروایا تھا یعنی وہ اس طلاق نامہ سے انکاری نہیں ہے۔ لیکن طلاق نامہ کے ساتھ جو علیحدہ کاغذ پر حلف نامہ لکھا گیا تھا وہ گم ہو گیا ہے۔ کیا اس گم شدہ حلف نامے کو دوبارہ لکھوانا یا اس کے متبادل طلاق دینے والے شخص سے قسم یا حلف لیا جاسکتا ہے کیا اسکی شرعی حیثیت ہے؟ براہ مہربانی اس ساری صورت حال کے بارے میں جو بھی شرعی احکام ہوں حوالہ کے ساتھ رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ والسلام جواب: طلاق خواہ سنجیدگی میں دی جائے یا مذاق میں، جھوٹی ہو یا سچی، فرضی ہو یا حقیقی، طلاق واقع ہو جائے گی۔ حدیثِ مبارکہ میں آقا علیہ الصلاۃ و السلام کا ارشاد ہے: عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع‘‘ ابي داود، السنن، 2: 259، رقم: 2194، دار الفکر ترمذي، السنن، 3: 490، رقم: 1184، دار احياء التراث العربي بيروت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں اگر مذکورہ شخص نے بقائمِ ہوش و حواس خود کہہ کر تین طلاق لکھوائیں یا خود لکھیں تو تینوں واقع ہو گئیں ہیں‘ خواہ دھمکی کے طور پر لکھی گئی تھیں یا جھوٹا طلاق نامہ لکھوایا گیا تھا۔ اس کے برعکس اگر یہ شخص ہوش و حواس میں نہیں تھا یا اس نے طلاق لکھنے کا کسی کو کہا ہی نہیں نہ خود طلاق نامہ لکھا‘ نہ لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کیے تو پھر یہ طلاق نامہ محلِ نظر ہے۔ مذکورہ شخص سے اس طلاق نامے کی بابت دریافت کیا جائے گا‘ اگر وہ اسے تسلیم نہیں کرتا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر وہ تسلیم کرتا ہے کہ طلاق نامہ اسی نے لکھوایا تھا تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ اگر اس نے عرضی نویس کو طلاق لکھنے کا کہا اور تعداد نہیں بتائی‘ عرضی نویس نے اس سے پوچھے بنا ہی تین طلاق لکھ کر اس سے دستخط کروا لیے تو ایک واقع ہوگی۔ میاں بیوی کے رجوع سے اس ایک کا بھی اثر ختم ہو جائے گا اور ان کا تعلق بحال ہو جائے گا۔ اگر اس نے عرضی نویس کو تین ہی لکھنے کا کہا تو طلاقِ مغلظہ واقع ہوگئی جس کے بعد ان کا ازدواجی رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ طلاق کے واقع ہونے کے لیے بیوی کو پتہ چلنا یا موصول ہونا ضروری نہیں ہے‘ خاوند نے جب گواہوں کی موجودگی میں زبانی یا تحریری طلاق دی۔ تحریر لکھوائی اسی وقت طلاق واقع ہو جائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں