مردوں پر دوسری شادی فرض کردی جائےمگر کیوں؟

میں اس ملک کے رسم و رواج کی شکار ایک ایسی لڑکی ہوں کہ جو محض دین کے بنیادی اصولوں سے انحراف کی وجہ سے مختلف الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہو چکی ہے۔ میں ایک پڑھی لکھی خاتون ہوں۔ بچپن ہی سے مجھے نصابی کتب کے علاوہ مذہبی اور دینی کتب پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ لٹریچر میں بھی خاص دلچسپی تھی۔ دین میں دلچسپی بڑھنے کی وجہ سے دین کو سمجھنے کا موقعہ بھی ملا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کی فہم و سمجھ عطا کی تو یہ احساس ہوا کہ اسلام واقعی دین فطرت ہے۔ تمام انسانی مسائل کا حل صرف دین اسلام میں ہی موجود ہے۔ یہ ایک مکمل دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ حیات نازل فرمایا اور پیغمبر آخر الزمان ﷺ نے قرآنی تعلیمات کا مکمل نمونہ بن کر مسلمانوں کے لئے دین کو سمجھنا اور بھی آسان بنا دیا مگر ہم نے نہ تو قرآنی تعلیمات کو اپنایا اور نہ ہی سنت رسول ﷺ پر عمل زندگی کا وطیرہ بنایا۔ نتیجہً ہر مسلمان مختلف پریشانیوں کا شکار اور نافرمانیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔میں ایک عام شکل کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہوں۔ ساری زندگی والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کی محبت کو ترسی ہوں کیونکہ میرے دوسرے بہن بھائی بہت خوبصورت ہیں ۔ جوان ہوئی تو کوئی میری زلف کا ایسر نہیں ہوا جس کی وجہ سے مجھ میں احساس کمتری پیدا ہوگیا۔ عورت تو چاہے جانے اور سراہے جانے کے لئے پیدا ہوتی ہے۔ مگر میرے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ تعلیم مکمل کرکے میں نے ایک تعمیراتی ادارے میں ملازمت کر لی۔ دوران ملازمت میں نے اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھانے کی کوشش کی اور کمپنی کے مفادات کا ہر لمحہ ہر پل خیال رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری کمپنی کو بہت فائدہ ہوا۔ ہماری کمپنی کے سی ای او (مالک) ایک انتہائی نفیس اور سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ ان کی عمر تقریبا پچاس برس ہے۔ چار بچے ہیں۔ دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ باقی بچوں کی شادی ہونی باقی ہے۔ میرے احساس ذمہ داری نے کمپنی کے سی ای او کو مجھ میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا۔ مجھے ان کی اس دلچسپی کا احساس بھی ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ زندگی میں پہلی بار کسی نے میری اپنی ذات میں جھانکنے کی کوشش کی۔ آہستہ آہستہ ان کی یہ دلچسپی پسندیدگی اور محبت میں بدل گئی۔ ایک دن انہوں نے اپنی اس پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ کسی بھی قسم کا ناجائز یا غیر شرعی تعلق نہیں رکھنا چاہتے بلکہ وہ مجھے اپنی دلہن بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے خاندانی پس منظر کے متعلق بتایا اور کہا کہ وہ شادی کرکے مجھے الگ گھر لے کر دیں گے۔ میں ایک عرصہ سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ ان کی شخصیت کے تمام پہلو میرے سامنے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے بھی ان کی خوبیوں اور شخصیت کی وجہ سے ایک خاص لگاؤ کا احساس ہوا پھر ایک دن وہ میرے گھر پہنچ گئے رسمی بات چیت کے بعد انہوں نے میرے والدین سے میرا رشتہ مانگ لیا۔ ان کی یہ بات سن کر میرے والدین سیخ پا ہوگئے۔ میری ماں نے کچھ اس طرح سے دوسری شادی کے متعلق الفاظ بولے کہ جیسے دوسری شادی ایک بہت بڑا گناہ کبیرہ اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔ وہ انتہائی شرمندہ ہوئے اور ندامت کا احساس لئے گھر سے چلے گئے۔ میرے والدین نے مجھے دفتر بھیجنا بند کر دیا اور میرے لئے رشتہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ تمام رشتے ایسے تھے کہ جن کے متعلق سن کر میرا دل خون کے آنسو روتا تھا مگر میرے والدین کو ایسے تمام رشتے منظور تھے۔ ایک صاحب واپڈا میں کلرک تھے۔ کرائے کے چھوٹے سے گھر میں اپنے والدین اور چھ بہن بھائیوں سمیت رہتے تھے۔ دو شادی شدہ بھائی بھی اپنے بچوں کے ہمراہ اسی گھر میں رہتے تھے۔ والدین وہاں شادی کرنے پر بضد تھے۔ باقی رشتے بھی اسی قسم کے تھے۔ اخلاقی اقدار سے عاری افراد کو مجھ سے زیادہ دلچسپی جہیز سے تھی۔ والدین کو ان باتوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اعتراض تھا تو صرف اس بات پر کہ ایک سلجھا ہوا فرد دوسری شادی کیوں کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے گھر میں میرے باس کا ذکر ایسے الفاظ میں کیا جاتا کہ جیسے انہوں نے سر عام کوئی گناہ کبیرہ کیا ہو۔جب میرے گھر والوں نے میرے باس کو انکار کیا اور مجھے دفتر بھیجنا بند کیا تو ایک دن میری تنخواہ انہوں نے بذریعہ موبی کیش مجھے بھجوا دی اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ اب میں اس معاشرے سے صرف ایک سوال پوچھتی ہوں کہ میرے باس نے میر ا رشتہ مانگ کر کیا گناہ کیا؟ کیا ظلم کیا؟ وہ مجھے ہر قسم کی آسائش اور سکھ دینے کو تیار تھے مگر ان کی دوسری شادی کی خواہش کو کتنا بڑا گناہ تصور کیا گیا۔ ہمارا دین عورت کو احترام اور تحفظ دینے کا درس دیتا ہے اور یہ تحفظ ، احترام اور عزت صرف اس وقت حاصل ہو سکتی ہے کہ جب عورت کو اہمیت حاصل ہو۔ہمارے ملک میں تمام قوانین ایسے ہیں کہ مرد دوسری شادی کا تصور بھی کر سکتا ہے جبکہ ہمارے دین اسلام میں متمول مردوں کو دوسری شادی کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے بلکہ نبی کریم ﷺ خلفاء راشدین اور تقریبا تمام صحابہ کرام نے اس پر عمل بھی کیا اور دوسرے تمام مسلمانوں کے لئے مثال قائم کی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ قوانین ایسے ہونے چاہیں کہ تمام متمول افراد ایک سے زیادہ شادیاں کریں تاکہ خواتین کو عزت و احترام حاصل ہو ان کی’’ڈیمانڈ‘‘ میں اضافہ ہو۔ وہ ہر قسم کا رشتہ قبول کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ ہمارے حکمران اسلام کی اصل روح کے مطابق قوانین بنانا شاید غلط کام سمجھتے ہیں۔

close