خسارہ، منافع، حلال، حرام اور جمع خرچ فیاض باقر کی لاجواب تحریر

ہمارے بہت سے گناہ ہمارے اجتماعی گناہ ہیں جنکی زمہ داری کسی ایک فرد، جماعت، سوچ یا عقیدے پر ڈال کر کفارہ ادا کرنے کی کوشش نے ہمیں مسلسل ناکامیوں سے دو چار کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا گناہ آنکھوں کے سامنے موجود حقیقت کو نہ دیکھنا ہے۔ دوسرا گناہ اپنے اندر موجود بے رحمی سے آنکھیں

بند کرنا ہے
ذرا غور کیجئے تو آپ کو دو دلچسپ حقیقتیں واضح طور پر نظر آئیں گی۔ ایک یہ کہ مالی وسائل کی کثرت کے باوجود ہمارا خزانہ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے۔ دوسرے ہمارا خزانہ خسارے میں ہونے کے باوجود ہماری اشرافیہ ہمیشہ منافع میں رہتی ہے۔ اس عدم توازن کا تعلق کسی ایک ادارے، فرد ، جماعت یا حکومت سے نہیں ہے۔ ہم نے روز اوّل سے کچھ ایسے طریقے اپنائے کہ ہم نے حلال کو مشکل اور حرام کو آسان بنا دیا۔ اس کا تعلق مزہب کو ترک کرنے سے نہیں ہے عقل اور اخلاقی جرآت کو ترک کرنے سے ہے۔ عقل کو اختیار کرنا لا دینیت نہیں ہے۔ سیکولرازم کا مطلب بھی لا دینیت نہیں ہے۔ اس کا مطلب دنیاوی کام دھندے کرنا ہے۔ یا دنیا داری ہے۔ دنیا داری کے لئے ہمارے مزہب نے ہمیں کچھ اصول بتائے ہیں – ان اصولوں کی روشنی میں عقل سے کام لے کر راستہ تلاش کرنا سیکولر ازم ہے۔جن معاملات پر مزہب خاموش ہے وہاں ہمیں عقل استعمال کرنے کی پوری آزادی ہے

پاکستان بننے کے وقت ہماری قیادت کے پاس ملک کو چلانے کا کوئ منصوبہ نہیں تھا اور کوئ تجربہ بھی نہیں تھا۔ ہمیں یہ طے کرنا تھا کہ ملک کو چلانے کے لئے کیا وسائل چاہئیں اور یہ کہاں سے آئیں گے اور انہیں خرچ کیسے کرنا ہے۔اس جمع خرچ کے نظام کو کسی ملک کا مالی نظام کہتے ہیں-اس مالیاتی نظام کے کچھ طریقے ہمیں ورثے میں ملے۔ انہیں تبدیل نہ کرنے اور نئے طریقوں کو آنکھ بند کر کے نقل کرنے سے ہم نے جو معیشت بنائ ہے وہ ایسی گائے کی طرح ہے جو چارہ تو ہمارا کھاتی ہے لیکن دودھ کسی اور کے گھر دیتی ہے- یہ چارہ ہمارے گھر اس لئے کھاتی ہے کہ چارہ یہاں سستا ہے۔ سستے سود پر تقریباً مفت ملنے والے غیر ملکی قرضے، پرمٹ، لائسنس میں کم قیمت پر ملنے والا خام مال اور مشینری، پرانے زمانے میں کوٹے میں ملنے والے ڈالر، اٹیکسوں کی ادائیگی میں گھپلا، یا ایس آر او جاری کر کے قیمتوں میں ہیر پھیر کر کے مال ملک سے باہر یا اندر کرنا ہے۔ یا سرکاری لین دین ( پروکیعر منٹ ) میں جعلی قیمتیں درج کرنا۔یہ سب سستے چارے کی شکلیں ہیں۔ دودھ یہاں مہنگا نہیں بکتا، کیوں کہ سرکاری اہلکاروں کو ڈالی یا بھتہ دینے کے بعد جو منافع ملتا ہے اس سے آسان نفع کمانے کا طریقہ باہر کے بنکوں میں روپیہ جمع کرانا ہے- اس لئے ہماری گائے دودھ باہر دیتی ہے۔ ملک سے کمایا ہوا یا چرایا ہوا مال باہر کے بنکوں میں جمع کرا دیا جاتا ہے۔ صرف اس ایک شعبے میں پردہ داری کی سخت پابندی کی جاتی ہے۔ کوئ خبر چادر اور چار دیواری سے باہر نہیں نکلتی گھر کے اندر سرمایہ صرف زمین خریدنے پر لگایا جاتا ہے۔اس طریقے سے بغیر کچھ کئے منافع ملتا رہتا ہے۔ سو سب سے بڑا معرکہ جو ہم نے مارا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے غیر حاضر زمیندار طبقے کے ساتھ ایک غیر حاضر سرمایہ دار طبقہ بھی پیدا کر دیا ہے۔ جو قرضے انہوں نے جیب میں ڈالے ہیں وہ ٹیکسوں سے ادا ہوتے ہیں جس کا ستر فیصد بوجھ ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کی شکل میں غریب عوام پر پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹیکس وصول کرنے کا طریقہ ایسا ہے کہ ٹیکس دینے والے کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ ٹیکس دے رہا ہے۔ وہ ٹیکس دینے کے باوجود خود کو سرکار کا نمک خوار سمجھتا ہے اور قدم چھونا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔
قرضے کے بوجھ اور اس سے پیدا ہونے والی مہنگائ اور بے روزگاری کی وضاحت کے لئے ہم نےایک اور چُوری کھانے والا طبقہ پیدا کیا ہے جو مسلسل عوام کی بد اعمالیوں کو ان مصائب کا ذمہ دار ٹھراتاہے۔ ان کے مطابق ہماری بدحالی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے، روزے نہیں رکھتے، عورتیں سائیکل چلاتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ بنک سے قرضہ لیتے ہوئے ۔ زمین خریدتے ہوئے ۔ حکومتی قرضے معاف کراتے ہوئے ۔ زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے، ٹیکس چوری کرتے ہوئے،زکات کے مال سے حج کرتے ہوئے ہم نے کبھی شرعی احکامات پر عمل ضروری نہیں سمجھا۔ مالی معاملات جو بندوں کے درمیان معاملات ہیں انہیں ہم نے بندے اور خدا کا معاملہ بنا کر مواخزے سے بری کر دیا ہے اور عبادات جو بندے اور خدا کا معاملہ ہیں اس میں ان کی جوابدہی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔اور اس میں تشدد، قتل و غارت اور ظلم کو جائز بنا لیا ہے۔ ہم نے غیر ملکی ‘مزہبی اقلیتوں’ سے اربوں ڈالر لے کر جہاد کرنا جائز سمجھاہے۔ لیکن ملک میں مزہبی اقلیتوں کے جان اور مال کو پامال کرنا ناجائز نہیں سمجھا۔
گائے کو گھرمیں باندھنے کا گُر ہم نے سیکھا نہیں -صرف ‘ قرعہ اندازی’ کے ذریعے لوگوں کا احتساب کرنے یا آنکھیں بند کر کے ‘کسی کو نہیں چھوڑوں گا’ کا نعرہ لگانے کے علاوہ کوئ اور نسخہ ہمارے پاس ہے نہیں
اپنی بات سمجھانے کے لئے مجھے اپنی کہانی قیام پاکستان کے فوری بعد سے شروع کرنی پڑے گی۔ پھر ہم سیدھے آج کے دور کی طرف آ سکتے ہیں۔ یہ کہانی کوئ مرچ مسالے والی کہانی نہیں بلکہ جس طرح علامہ اقبال نے کہا تھا
*غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
سو پاکستان کی کہانی بھی ویسے ہی ہے
پاکستان بننے کے وقت پاکستانی قیادت کے سامنےپہلا سوال یہ تھا کہ ہم پاکستان کو کیا بنانا چاہتے ہیں- دوسرا سوال یہ تھا کہ یہ کیسے ہو گا۔ پہلے سوال کے تین جواب تھے۔ یہ جواب آپکو پاکستان کے پہلے پنجسالہ منصوبے میں مل جائیں گے۔ لہٰزا میں قیاس آرائ نہیں کر رہا شواہد کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں۔ ہم پاکستان کو ایک خوشحال ملک بنانے کے لئے اسے ایک صنعتی قوت بنانا چاہتے تھے۔ اور اس کے مضبوط دفاع کے لئے اسے ایک بڑی فوجی قوت بنانا چاہتے تھے۔ یہ دونوں کام ہم حکومتی وسائل کی مدد سے کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا تیسرا ہدف افرادی قوت کی ترقی تھا۔ یہ وہ واحد وسیلہ ہے جو کسی ملک کی ترقی یا پسماندگی کا فیصلہ کرتاہے۔کسی ملک کی ترقی کے لئے اس کے پاس سرمایہ ہونا ضروری نہیں ترقی یافت افرادی قوت نہایت ضروری ہیے ۔ سرمایہ وہیں خود بخود آ جاتا ہے جہاں موزوں افرادی قوت موجود ہوتی ہے۔ہم نے یہ کام مارکیٹ یا نجی شعبے کے حوالے کر دیا۔ یہاں زرا ٹھرئے اور غور کیجئے۔ اس پر تفصیل آیندہ صفحات میں بیان کی جائے گی
دفاعی شعبے اور کاروباری طبقے کی مدد ہم سرکاری وسائل سے کرنا چاہتے تھے اور غریب اور بے سہارا لوگوں کی تعلیم ، صحت اور روزگار کا کام ہم نے مارکیٹ کےرحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ہم نے ملکی ترقی کا کام سرکاری شعبے کے وسائل سے ایک منصوبہ بندی کے نظام کے تحت کرنا شروع کیا۔ لیکن غریب اور محنت کش لوگوں سے کہا تم ‘آزاد’ ہو اپنا بند وبست خود کرو۔ایک طرف ہمارے لنگرسےچُوری کھانے والے پہلوان ہیں دوسری طرف تم۔منصفانہ مقابلہ ہو گا۔ ہر کسی کو اس کی اہلیت کے مطابق ملیگا۔ جو اس ‘انصاف’ کے خلاف شر پسندی یا تخریب پسندی کرے گااُسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
اب آئے ذرا دیکھیں ہمارے ترقی کے نظام میں شامل طبقات قیام پاکستان کے وقت کس سطح پر تھے۔ قیام پاکستان کے وقت ایک فیکٹری کے علاوہ ہمارے پاس صنعت نام کی کوئ چیز نہیں تھی ، نہ ہی کوئ صنعتکار طبقہ تھا۔ لیکن قائد اعظم کی درخواست پر گجراتی تاجر جن کے پاس تجارت کا وسیع تجربہ تھا اور وہ مشرقی اور مغربی افریقہ تک تجارتی معاملات کرتے تھے پاکستان منتقل ہو گئے۔ ان کے تجربہ اور اثر رسوخ کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ مہاتما گاندھی نے اپنی وکالت کا آغاز جنوبی افریقہ میں ایک مسلمان گجراتی تاجر کی ملازمت سے کیا تھا۔ ہماری فوج کو تقسیم ہند سے ٹوٹے پھوٹے اثاثے ملے لیکن یہ کوئ معمولی فوج نہیں تھی۔ برطانوی ہند کی فوج جو تاج برطانیہ کی افریقہ اور ایشیا بھر کی فوج تھی بنیادی طور پر پنجابی مسلمان فوج تھی – اسی فوج کی مدد سے تاج برطانیہ نے دونوں عالمی جنگیں جیتیں اورشکر کا ایک کلمہ تک ادا نہ کیا۔ اس فوج کے پاس تجربہ، مہارت اور قیادتی صلاحیت تینوں موجود تھے-تیسرا اہم طبقہ غیر حاضر زمینداروں کا تھا۔ جنہیں انگریز نے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم کر کے زمین کے اتنے وسیع قطعوں کا مالک بنا دیا تھا کہ وہ رہتے شہروں میں تھے اور ان کی زمین ان کی غیر حاضری میں ان کے منشی اتنی مہارت سے چلاتے تھے کہ پنجاب پورے ہندستان کا اناج گھر بن گیا تھا۔ پاکستان کے کسان اور دستکار یہاں کی ضرورت کی تمام چیزیں بناتے تھے۔ ان کی پٹ سن اور کپاس کی برآمدات سے ہمیں زر مبادلہ ( ڈالر) حاصل ہوتے تھے۔ جن کی بنیاد پر ہم نے صنعتی ترقی کا نظام قائم کرنے کا سوچا تھا- ان کی مالی ترقی، ہنر اور قابلیت میں اضافے پر وہ نظام قائم ہونا تھا جس سے ہمارے دفاع اور صنعت نے مضبوط ہونا تھا- انہیں ہم نے حالات (مارکیٹ) کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور اب تک چھوڑا ہوا ہےہم نے ترقیاتی کام کے لئے ماہرین تیار کئے جو بڑے شہروں میں متعین تھے ۔ان کے نیچے ہم نے نہ ہی پیرا پروفیشنل تیار کئے نہ ہی ترقیاتی اداروں کو پہنچ مہیا کی جو مقامی ترقی اور افرادی قوت کی ترقی کا کام کریں۔ ۔یعنی آمدنی کی ترقی کو نظر انداز کر دیا اور خرچ کی ترقی کو ترقی کے نام پر اختیار کر لیا۔ یہ پہلی اینٹ ہے جو ٹہڑی رکھی گئی۔ مولانا روم نے کہا ہے کہ دیوار کی پہلی اینٹ ٹہڑی رکھی جائے تو پوری دیوار ٹہڑی ہو گی۔
اب ہم آتے ہیں آمدنی اور خرچ کے نظام کی طرف۔ پہلے میں مختصر طور پر آمدنی کا بیان کروں گا پھر خرچ کا ۔ ان میں سے ہر مد کی تفصیل آئندہ صفحوں میں دی جائگی ۔ڈالی۔ بےگار ، نزرانے۔ آبیانہ، مالیہ، زرعی مال کی قیمتیں، غیر ملکی تجارت سے ملنے والا زر مبادلہ اور ڈیوٹیاں ، قرضے اور لائسنس سرکار کی آمدنی کے بنیادی ذرائع ہیں۔پاکستان بنتے وقت ہماری آبادی کی اکثریت گاؤوں میں رہتی تھی۔ پیداوار زرعی تھی اور نقدی کا استعمال نہایت کم تھا اس لئے کاروباری اور سرکاری لین دین زیادہ تر اجناس اور خدمات کی شکل میں ہوتے تھے۔ڈالی اور بیگار بھی سرکار کو اجناس اور خدمات کی شکل میں ٹیکس دینے کا طریقہ تھا۔ ڈالی کی جگہ آہستہ آہستہ بھتے نے لے لی۔ ہم نے ڈالی اور بھتے کی جگہ ٹیکس کا نظام پوری طرح قائم نہیں کیا حالانکہ ہماری معیشت اجناس کے تبادلے کے دور سے نقدی کے تبادلے کے دور میں داخل ہو گئی اور دور دراز پہاڑی گاؤوں میں بھی اب تمام لین دین پیسے میں ہوتا ہے-۔ یہ ہماری دوسری ٹہڑی اینٹ ہے- ہم نے خسارے کے کاروبار کو سستا اورمنافع کے کاروبار کو مہنگا کر دیا یہ ہماری تیسری ٹہڑی اینٹ ہے۔ پاکستان کا چیلنج ان تینوں اینٹوں کو سیدھا کرنا ہے۔ کچھ کام شہریوں کے کرنے کے ہیں ، کچھ کاروباری برادری کے اور کچھ حکومت کے ان اینٹوں کو سیدھا کرنے اور آمدنی کو خرچ سے بڑھانے کے لئے انصاف اور برابری کے مطالبات شروع دن سے پاکستان کی سیاست کا حصہ رہے ہیں -ہم نے ملک مسلمانوں کو متحدہ ہندستان میں اقتدار میں حصہ نہ ملنے کی بنیاد پر مانگا تھا۔ اور ملک ملتے ہی ایک نا برابر نظام میں اقتدار میں حصہ مانگنے والوں کو اسلام دشمن، ملک دشمن اور غدار قرار دینا شروع کر دیا-مسئلہ سیکولر اور اسلامی سوچ میں ٹکراؤ کا نہیں آنکھیں بند کر کے یا آنکھیں کھول کے منصوبہ بندی کرنے کا ہے۔ اہل اقتدار یا عوام کی اخلاقیات کے ٹکراؤ کا ہے۔
اب آئے وسائل حاصل کرنے کے طریقہ کار کی طرف -وسائل جمع کرنے کے نظام کو سمجھنے کے لئے ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ غیر ملکی اداروں کی مالی اور تکنیکی امداد، فوجی حکمرانوں کی قائم کردہ تکنیکی ماہرین کی حکومتیں ، منتخب عوامی حکومتیں اور سول سوسائٹی کے ادارے اس خسارے اور ناکامی کے نظام کو بدلنے میں کتنا کامیاب ہوئے اور کیا کرنا باقی اور ممکن ہے

close