ایک بادشاہ تھے ان کے ایک پیر تھے ۔ اور ان کے بہت بہت پیروکار اور مرید تھے ۔بادشاہ نے بہت خوش ہو کر اپنے مرشد سے کہا کہ آپ بہت خوش نصیب آدمی ہیں ۔آپ کے معتقدین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں گنا بھی نہیں جا سکتا ۔مرشد نے کہا ان میں سے صرف ڈیڑھ شخص ایسا ہے جو میری عقیدت والا ہے اور مجھ پر
جاں نثاری کر سکتا ہے ، اور مجھ کو مانتا ہے اور باقی کے ایسے ہی ہیں ۔بادشاہ بہت حیران ہوا کہ یہ پچاس ہزار میں سے صرف ڈیڑھ کیسے کہ رہا ہے ۔مرشد نے کہا کہ ان کے نفس کا ٹیسٹ کرتے ہیں تب آپ کو پتا چلے گا ۔تو انھوں نے کہا کہ اس میدان کے اوپر ایک ٹیلہ ہے اور اس ٹیلہ کے اوپر آپ مجھے ایک جھونپڑی بنوادیں فوراً رات کی رات میں بنوا دیں – بادشاہ نے جھونپڑی بنوا دی ۔اس جھونپڑی میں اس بزرگ نے دو بکرے باندھ دیے – اور کسی کو پتا نہیں کہ اس میں دو بکرے باندھے گئے ہیں ۔اور پھر وہ جھونپڑی سے باہر نکلا اور اونچی آواز میں کہا ۔ہے کوئی میرے سارے مریدین میں سے جو مجھ پر جان چھڑکتا ہو ؟میری بات دل کی گہرائیوں سے مانتا ہو ؟ بری اچھی میں ساتھ دینے والا ہو ۔اور جو قربانی میں اس سے مانگوں وہ دے – اگر کوئی ایسا ہے تو میرے پاس آئے ۔اب اس پچاس ہزار کے جم غفیر میں سے صرف ایک آدمی اٹھا ، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ،ڈھیلے پاؤں رکھتا ہوا اس کے پاس گیامرشد نے کہا تجھ میں یہ دم خم ہے ؟اس نے کہا ، ہاں ہے ۔کہا ، آ میرے ساتھ ۔اس نے اس کی کلائی پکڑی اس کو جھگی کے اندر لے گیا اور وہاں کھڑا کر دیا ۔اور کہا خاموشی کے ساتھ کھڑا رہ ۔پھر اس نے ایک بکرے کو لٹایا ، چھری نکالی اور اسے ذبح کر دیا ، جھونپڑی کی نالی کے پاس ۔اور جب وہ خون نکلا تو پچاس ہزار کے گروہ نے دیکھا اور وہ خون آلود چھری لے کر باہر نکلا اور کہا قربانی دینے والے شخص نے قربانی دے دی ۔میں اس سے پوری طرح مطمئن ہوں اس نے بہت اچھا فعل کیا۔جب لوگوں نے یہ دیکھا تو حیران اور پریشان ہو گئے ۔اب ان میں سے لوگ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے ۔ کچھ جوتیاں پہن کر کچھ جوتیا چھوڑ کر ۔تو انھوں نے کہا اے لوگو ! قول کے آدمی نہ بننا صرف مضبوطی اور استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کی کوشش کرنا ۔اب میں پھر ایک اور صاحب سے کہتا ہوں وہ بھی اپنے آپ کو قربانی دینے کے لئے پیش کرے ، اور میرے پاس آئے کیونکہ یہ اس کے نفس کا ٹیسٹ ہے ۔تو سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ کوئی آگے نہ بڑھا ۔ اس دوران ایک عورت کھڑی ہوئی تو اس نے کہا !” اے آقا میں تیار ہوں “۔اس نے کہا ، بیبی آ ۔چنانچہ وہ بیبی چلتے چلتے جھگی میں گئی ، اس بیچاری کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پہلے کے ساتھ ہوا ۔اندر اسے کھڑا کیا اور دوسرا بکرا ذبح کر دیا ، اور اس کے پرنالے سے خون کے فوارے چھوٹے۔جب یہ واقعہ ہو چکا تو بادشاہ نے کہا آپ صحیح کہتے تھے ، کیونکہ وہ میدان سارا خالی ہوگیا تھا ۔پچاس ہزار آدمی ان میں سے سے ایک بھی نہیں ہے ۔انھوں نے کہا میں نے کہا تھا میرے ماننے والوں میں سے صرف ڈیڑھ شخص ہے ، جو مانتا ہے ۔بادشاہ نے کہا ہاں میں بھی مان گیا ، اور سمجھ بھی گیا ، اور وہ شخص تھا وہ مرد تھا وہ پورا تھا ۔جب کہ وہ عورت جو تھی وہ آدھی تھی ۔اس نے کہا نہیں بادشاہ سلامت یہ مرد آدھا تھا اور عورت پوری تھی ۔پہلا جو آیا تھا اس نے کوئی خون نہیں دیکھا تھا ۔اس بیبی نے دیکھا جو واقعہ گزرا پھر بھی اٹھ کر آنے کے لئے تیار ہوئی تھی اس لیے وہ خاتون سالم Entity پر ہے ۔اور آدھا وہ مرد ہے ۔میرے ماننے والوں میں ڈیڑھ لوگ ہیں باقی سارے نفس کے بندے ہیں ۔“(از اشفاق احمد زاویہ ١ قول اور نفس صفحہ ٢٥١(
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں