اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم آفس اسلام آباد میں یونیورسٹی کے قیام میں مزید چھ سال لگ سکتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے لیے ابھی فیزیبلٹی رپورٹ بن رہی ہے۔ اس فیزیبلٹی کے لیے 3 ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں ،دسمبر تک یونیورسٹی کی
فزیبلٹی رپورٹ تیار کر لی جائے گی۔ بدھ کوایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشتاق احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میںمنعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سکندر میندرو، سید محمد صابر شاہ، سسی پلیجو، نزہت صادق، گیان چند، ہدایت اللہ کے علاوہ وفاقی وزیر سائنس ٹیکنالوجی فواد چوہدری ، وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر نعمان وزیر خٹک کے 26 اگست2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے معاملہ برائے بجلی کے استعمال میں کمی کیلئے ٹیکنالوجی کے موثر استعمال ، وزارت سائنس ٹیکنالوجی کے پی ایس ڈی پی کے جولائی سے دسمبر2020 تک مختص اور استعمال بجٹ ، پی ایس کیو سی اے کی جانب سے 61 فوڈ و نان فوڈ آئٹمز لازمی سریٹفکیشن مارک سکیم میں شامل کرنے کے معاملے ،پی ایس کیو سی اے کے افسران کی کرپشن کے کیسز کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کے 18 اگست 2020 کو منعقد ہ اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد ،پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے مضر صحت اور ملاوٹ کرنے والی برینڈ کی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف سفارشات پر عملدرآمد ، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے بغیر سربراہان کے کام کرنے والے ماتحت اداروں کے سربراہان تقرر نہ ہونے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی کو
گزشتہ چھ ماہ کے دوران پی ایس ڈی پی منصوبوں پر اخراجات کی تفصیلات سے آگاہ کیا، کمیٹی کو بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 32منصوبوں میں سے پچیس وزارت اور اس کے ماتحت اداروں جبکہ سات منصوبے وزیراعظم ٹاسک فورس کے تھے، ان منصوبوں کیلئے رواں مالی سال کیلئے 4458ملین روپے مختص کئے گئے تھے، جن میں سے پہلے چھ ماہ کے دوران 1087ملین روپے ریلیز ہوئے اور ان میں سے اب تک 222ملین روپے خرچ ہو سکے ہیں، دو ارب صرف وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بننے والی یونیورسٹی کیلئے مختص ہوئے ہیں ، یونیورسٹی کی فزیبلٹی وغیرہ پر 390ملین روپے خرچ ہونگے۔ جس پرچیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بعض منصوبوں کو دو سال پہلے مکمل ہونا چاہئے تھا ان پر اب بھی کام جاری ہے، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میجر (ر) ڈاکٹر قیصر مجید ملک نے بتایا کہ 13منصوبے رواں مالی سال کے آخر تک مکمل ہو جائیں گے۔یونیورسٹی کی فزیبلٹی بن رہی ہے اور اس کے قیام میں چھ سال لگیں گے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ رقم پہلے مختص کر دی گئی اور منصوبے کی فزیبلٹی ابھی بنی ہی نہیں، یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے کوئی عملی کام نہیں ہوا ہے ، ڈاکٹر شعیب نے بتایا کہ 390ملین روپے صرف فزیبلٹی سٹڈی پر خرچ نہیں ہونگے، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کمیٹی کو بتایا کہ جب کورونا وباآئی تو
پاکستان میںکچھ نہیں بنا رہا تھا،وینٹی لیٹرز، ماسک،سینی ٹائزر ہر چیز درآمد کر رہے تھے، آج پاکستان کورونا آلات کی برآمدات کرر ہا ہے، ہم نے دو نئی انڈسٹریز کھڑی کر نی ہیں، بڑی کمپنیاں آکر پاکستان میں ڈائیلائسسز مشینیں بنا رہی ہیں، الیکٹرک وہیکل پالیسی ہماری بڑی کامیابی ہے، اس سال سب سے بڑی اسکالرشپ مہم شروع کررہے ہیں،سکالرشپ منصوبے کیلئے 13 ارب روپے کا منصوبہ منظور ہوا ہے۔انہوں نے کہا جب میں نے چارج لیا تو سائنس کے اداروں کے سربراہان نہیں تھے۔ ریسرچ کا بجٹ 16 ارب روپے تک لے گئے ہیں، اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں ، اداروں کے بورڈز مکمل کروائے ہیں ، چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ پچھلے 33ماہ میں یہ 48واں اجلاس ہے۔227سفارشات وزارت کو دی ہیں جو وزارت کے ماتحت اداروں سے متعلق تھیں، اداروں کا کام سست روی کا شکار ہے،وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ پندرہ سالوں کے بعد ہم نے اداروں کے رولز بنائے ہیں،ہم نے پہلی بار سول ملٹری انٹرفیز تیار کیا ہے،پرائیویٹ سیکٹر کے بغیر ہم پراجیکٹس کو آگے نہیں چلاسکتے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے لوگوں نے زمینوں پر قبضے کر رکھے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ صرف چار ادارے رہ گئے ہیں جن کے سربراہ ابھی لگنے باقی ہیں تاہم زیادہ تر اداروں کے سربراہان لگا دیئے گئے ہیں۔چیئرمین
کمیٹی نے کہا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے سیلری پیئنگ سنٹرز بن گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ بند بوتل کے نام پر قوم کو گندہ پانی پلایا جا رہا ہے ۔پی ایس کیو سی اے حکام نے بتایا کہ 23 کمپنیوں کے پانی کے نمونے غیر معیاری پائے گئے۔ پانچ کمپنیوں کے یونٹس سربمہر کیے گئے، 18 کمپنیوں کے سیلنگ پوائنٹس کو بند کیا گیا، پی ایس کیو سی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر مل کر پانی کی موبائل سیمپلنگ کرتے ہیں مگر اس دفعہ مشترکہ طور پر سمپلنگ نہیں کی گئی۔سات بڑے شہروں میں پانی کی سیمپلنگ کی گئی۔ ایکشن لینے کے بعد کمپنیاں نام تبدیل کر کے دوبارہ کام شروع کردیتی ہیں۔ایڈیشنل سیکرٹری نے بتایا کہ اس چیز کو آئوٹ سورس کرنے جا رہے ہیں۔ پی ایس کیو سی اے جرمانہ بھی نہیں کرسکتا، ڈی جی پی ایس کیو سی اے نے کہا کہ ایکٹ میں ترمیم کیلئے لکھ کر بھیج دیا ہے کہ ادارے کو موقع پر جرمانے کا بھی اختیار دیا جائے جو پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے ہونا چاہئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاپا نی کے اسٹنڈرڈ چیکنگ نہیں کرسکتے تو باقی 61 چیزوں کا کیا کریں گے،چیئرمین کمیٹی نے پی ایس کیو سی اے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس کیو سی اے میں کرپشن کیسز کی انکوائری التوا کا شکار ہے ، ہماری ہدایات کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔ پچھلے تین سال سے یہ معاملہ کمیٹی کے ایجنڈے پر ہے ، جن افسران پر کرپشن کے
کیسز ہیں ان کو معطل کیا جائے مگر کسی کو معطل نہیں کیا گیا ، پی ایس کیو سی اے حکام نے بتایا کہ تین افسران کو معطل کیا جاچکا ہے۔ سنیٹر نعمان وزیر نے بتایا کہ سینٹ کا یہ عالم ہے ہم زوم میٹنگ نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں بجلی کی ڈیمانڈ 23000میگاواٹ ہے جو سردیوں میں کم ہو کر صرف چھ ہزار پر آجاتی ہے۔ہمارے ایئر کنڈیشنرز سردیوں میں آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کھا جاتے ہیں جبکہ ہمارے پنکھے نو ہزار میگاواٹ بجلی کھا جاتے ہیں۔ پاکستان پنکھے 80سے 100والٹ لیتے ہیں جبکہ عالمی سطح کے بنے پنکھے صرف 20سے 30والٹ لیتے ہیں۔ ہم ایئرکنڈیشنر اور انوینٹر پنکھے استعمال کر کے چھ ہزار میگاواٹ بجلی گرمیوں میں بچا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ڈی سی پنکھوں کو انونٹر کرنا ہے۔ انہوں نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے کہا کہ اس حوالے سے پی سی ون تیار کرے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں