بین الاقوامی آن لائن کانفرنس، استنبول یونیورسٹی، ادبیات فیکلٹی استنبول۔ترکی مسئلہ کشمیر : علاقائی اور بین الاقوامی وسعتیں

کشمیر اور فلسطین عالم اسلام کے دو یتیم علاقے۔ اِن دونوں  علاقوں پر چھائیں ظلم و ستم کی کالی گھٹائیں    جو بیسویں صدی کے ربع اوّل سے لے کر آج تک تاریک سے تاریک ترین کی طرف بڑھ رہی ہیں اور اِن دونوں علاقوں کے مظلوموں کے اوپر مصیبتوں کا مینہ برسارہی ہیں، اُن کا مستقبل قریب میں ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔ لہذا یہ ایک ایسا مقام صد حیف و افسوس ہے جس کو دیکھ کر ہر ذی شعور  اور انسان دوست کا دل و دماغ  دکھ اور درد کے سنگین بوجھ کے تلے پریشان ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور ہندوستان کے قیام کے دوران ریاست جموں و کشمیر اور اس ریاست کی عوام کے حق خود ارادیت بہ زور توپ و تفنگ ان سے چھین لی گئی ہے آج موجودہ حکومت ہند کے ہاتھوں نہ صرف اس حق تلفی  کی تائید ہورہی ہے   بلکہ اُس سے بھی آگے بڑھ کر کشمیریوں سے اُن کی زمین، اُن کے گھر، اُن کی سرحدیں اور ان کا اپنا وطن پھر سے بہ زور توپ و تفنگ اُن سے چھین لیا جاتاہے ، صرف یہ بھی نہیں بلکہ  اُن کی جانیں، اُن کی عزت  اور اُن کی اپنی جان سے بھی عزیز بچے ان سے الگ کیے جاتے ہیں اور ان کے دلوں کو کبھی ختم نہ ہونے والا داغ مفارقت دیا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ کچھ ایسا غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جسے صرف ایک غاصب مسلح طاقت نئے مقبوضے علاقوں میں بھی شاید کرے  چہ جائے کہ  ایک حکومت جو ایک علاقے کو اپنے ملک کا اٹوٹ حصہ اور اس علاقے کے لوگوں کو اپنے شہری اعلان کرے،یہ واردات سامنے آئیں۔ مگر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو موجودہ صورتحال ہے وہ واقعتا  اس جدید عہد میں  ہندوستان کے ارباب اقتدار کی جمہوریت پسندی، انسان دوستی اور ان کی مساوات پسندی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور ہندوستان جیسے اپنی فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور صلح پسندی کے اقدار کا چرچا کرنے والے   اور امن کا خطہ ہونے کادعوی دار ایک ملک میں نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام سے بلکہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیاں   برصغیر کے امن و امان کے لیے خدشات پیدا کرتی ہیں۔

خاص طور پر ۵  اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر مقبوضہ  جموں و کشمیر میں حالات ناقابل یقین حد تک مہلک صورت اختیار کرگئے ہیں۔  مسلسل لاک ڈاون اور سخت ترین پابندیوں کے ساتھ کشمیری عوام کی زندگی اُجیرن کردی گئی ہے اور اِس خطہ زمین  میں ایک وحشت کا عالم پیدا ہوا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے مظالم نہ صرف عالم اسلام بلکہ تمام عالم انسانیت کے لیے  لمحہ غور و فکر ہے۔ کیا  کچھ دنیاوی مفادات کی خاطر مظلوم کشمیریوں کی دہائیوں کو سننے سے انکار کیا جا سکتا ہے یا کشمیر میں مظالم کے مناظر دیکھنے سے چشم پوشی ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب نہیں میں ہوگا۔

اِس منفی جواب کی تائید کے لیے ۲۹۔۳۰ جون ۲۰۲۰ء کو  استنبول یونیورسٹی ، ادبیات فیکلٹی کی جانب سے ایک بین الاقوامی آن لائن کانفرنس کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں پاکستان، ترکی اور دنیا کے مختلف ممالک سے شرکت کرنے والے مندوبین مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلووں پر تقریر کریں گے اور کورونا کی وبا کے دنوں میں جب کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے اپنے مسائل سے بر سر پیکار ہیں،  اس آن لائن کانفرنس کے ذریعے دنیا کی توجہ اس  اہم مسئلہ کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کریں گے۔

ہماری آن لائن کانفرنس کو مندرجہ ذیل لنکوں پر جاکر براہ راست دیکھا جاسکتا ہے۔

۲۹ جون ۲۰۲۰ء، پہلا روز بوقت پاکستان ظہر ایک بجےسے ساڑھے پانچ بجے تک :

۳۰ جون ۲۰۲۰ء دوسرا روز بوقت پاکستان ظہر ایک بجے سے چار  بج کر  پینتالیس منٹ تک:

من جانب

پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار

صدر شعبہ اردو۔استنبول یونیورسٹی

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں