مائن فیلڈ ایک ایسی خطرناک جگہ ہوتی ہے جہاں سے کسی کا غلطی سے بھی گزر ہوا تو بچنے کا صرف ایک فیصد امکان ہوتا ہے۔ ان جگہوں پر صرف وہ لوگ پاوں رکھتے ہیں جنھوں نے خود مائنیں بچھائی ہوں۔ان افراد کو سیف ایریا کا بھی پتا ہوتا ہے اور ڈینجز زون کا بھی۔ ہمارے ملک کا سسٹم حتیٰ کہ قانون بھی کسی مائن فیلڈ سے کم نہیں۔ کب کس کو بچانا اور کس کو گرانا ہے۔ کون لاڈلا ہے اور کون سوتیلا۔ یہ سب طے کرتے وقت نہ ملک کا سوچا جاتا نہ ہی مستقبل کے نتائج کا۔ 9 مئی کو ملک میں جو کچھ ہوا، وہ اچانک نہیں ہوا۔ یہ ایک دن ،ماہ یا ایک سال کی بھی بات نہیں۔ افسوسناک واقعات کی داغ بیل 2017ء میں رکھی گئی جب اس وقت کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتدار سے آؤٹ کرکے تاحیات نااہل قرار دیا گیا۔
تین دفعہ کے وزیر اعظم کو معمولی الزام پر گھر بھیج کر سیاست سے آو¿ٹ کرنے کے اس فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف کو نہ صرف سیاسی میدان میں متحرک ہونے بلکہ اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار کی۔ چونکہ چیئرمین پی ٹی آئی سیاسی مخالفین کو چور ، ڈاکو اور کرپٹ کہہ کہہ ماحول بنا چکے تھے اور ایسے میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی کے غیر متوقع فیصلے نے تحریک انصاف کو مضبوط جبکہ مسلم لیگ (ن) کو کمزور کردیا۔ اسکے باجود بھی 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل نہ کرسکیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ چھوٹی جماعتوں کے علاوہ الیکٹیبلز کو نتھی کرکے جیسے تیسے کپتان کو مسند اقتدار پر بٹھادیا گیا مگر بعد میں کچھ شخصیات کو یہ احساس ستانے لگا کہ ان سے معمولی نہیں بہت بڑی غلطی ہوئی۔ وقت بیت چکا تھا اور اب اس غلطی کا ازالہ ممکن نہ تھا۔کپتان نے اقتدار میں آتے ہی نہ صرف سیاسی حریفوں کو طاق طاق کر نشانے پر رکھا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے محسنوں کو بھی نہ بخشا۔ اقتدار چھن گیا تو کپتان نے مزید جارحانہ انداز اپناتے ہوئے امریکا کو بھی للکارا۔ اوئے نواز شریف سے ان کی ہر تقریر شروع ہوتی تھی اور اوئے امریکا پر ختم ہوتی تھی۔ ملک میں پہلی بار نفرت کا ایسا ماحول بنا کہ پھر سب کچھ جل گیا۔ مقتدر اداروں کے تقدس اور بھرم کو بھی بھلی چڑھادیا۔ 9 مئی کا سیاہ دن 2017ءمیں ہونے والی غیر ضروری غلطی کا دی اینڈ تھا۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کی وجہ سے ہی قوم نے پچھلے دوتین سال میں مہنگائی، بے روزگاری اور تباہی و بربادی جھیلی۔ سرمایہ کاری، تجارت اور صنعت کا پہیہ رک گیا۔ سی پیک منصوبہ بند اور ڈالر بے لگام ہوا۔ اسی طرح سیاسی میدان میں ہر دن افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا رہا۔اندرونی معاملات کے ساتھ ساتھ خارجہ محاذ پربھی پاکستان کو نقصان پہنچا۔
بدقسمتی سے ملک میں آئین و قانون کے بجائے شخصیات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اداروں کے بجائے جماعتوں یا گروپوں کو مضبوط بنایا گیا جس کے نتیجے میں ملک معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر پیچھے رہ گیا۔ 2017ء میں ہونے والے بلنڈر کے نتیجے میں ملک میں تفریق، انتشار، شخصیات اور اداروں کی بے توقیری نے فیصلہ سازوں کو حکمت عملی پر نظرثانی پر مجبور کردیا۔ سینیٹ میں سینیٹر دلاور خان نے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت سزا کی مدت 5سال مقرر کرنے کا بل پیش کرکے 2017ءکے اقدام کے سامنے پل باندھنے کی سعی کی۔ بل کے متن کے مطابق آئین میں جس جرم کی مدت سزا متعین نہیں، اس میں نااہلی پانچ برس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اہلیت اور نااہلی کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت ایسی ہو جیسا آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں فراہم کیا گیا ہے اور جہاں آئین میں اس کے لیے کوئی طریقہ کار، طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی ہے، اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔ اس بل کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا کسی بھی عدالتی فیصلے، ارڈر یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص فیصلے کے دن سے پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکے گا۔
کسی بھی سیاستدان کے لیے نااہلی کی سزا سیاسی موت کے مترادف ہے۔ اس قانون پر سیاستدانوں کے علاوہ ماہر قانون بھی کھل کر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی اس قانون کو ڈراکونین لاء قرار دے چکے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر فیصل وواڈا کی نااہلی کیس میں منصف اعلیٰ نے اس قانون پر سوالات اٹھائے تھے۔ آرٹیکل 62 اور 63 میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ ہمارے معاشرے میں صادق اور امین کے معیار پر پورا اترنا شاید کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ قانون دان بھی اس آرٹیکل پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ہمارا موضوع یہ نہیں۔اصل ایشو یہ ہے بلکہ بدقسمتی یہ ہے کہ 2017 میں ایک شخص کو سسٹم سے آو¿ٹ کرنے کے لیے پورا نظام داو¿ پر لگایا گیا۔ عام پاکستانیوں کو ہزاروں مسائل درپش ہیں۔ بے روز گاری کے باعث نوجوان غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کے چکر میں سمندر میں جانیں گنوا دیتے ہیں۔خود کشیاں بڑھ رہی ہیں اور کرائم کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران ملک بدترین معاشی وسیاسی بحران سے دوچار ہوا۔
جس وقت ملک کی معاشی سمت درست ہونا شروع اور پاکستان کی جی 20ممالک میں شمولیت کی باتیں ہونے لگیں تو عین اسی لمحے قانون اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ملکی ڈائریکشن خوشحالی سے بدحالی کی جانب موڑ دی گئی ہے۔ نتیجتاً نفرت اور انتقام کی روش نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر دیا۔ عوام کے دلوں میں پیدا کی گئی نفرت نے 9مئی کو ایک سیاہ دن کے طور پر رقم کردیا مگر ذمہ داران آج بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ عام پاکستان قانونی مائنز میں پھنس جاتا ہے،معمولی جرم یا الزام پر پوری سزا مل جاتی ہے لیکن طاقتور بڑا جرم کرکے بھی بچ جاتے ہیں۔ طاقتور اپنے مذموم مقاصد کے لیے قانون کی گردن بھی مروڑ دیتے ہیں۔ ان اقدامات سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتے ہیں وہی سوال کبھی کبھی سانحے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان تقریباً 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے اس کی مٹی میں لاکھوں افراد کا خون شامل ہے۔ خدارا اسے تجربہ گاہ نہ بنایا جائے، بہت تجربات کیے گئے اور ان کا نتیجہ صفر بٹا صفر ہے۔ آگے بڑھیں اور شخصیات کے بجائے آئین و قانون اور اداروں کا احترام کیا جائے۔ یہی ترقی کا راستہ ہے اور اسی راستے پر چل کر مملکت خداداد کا نام روشن ہوگا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں