کاری ضرب، سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

تحریک انصاف پر اس وقت نزع کا عالم طاری ہے۔ بھلا ہو چند سیاسی جماعتوں کا جنہوں نے سیاسی تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان اینڈ کمپنی پرپابندی لگانے سے منع کیا ورنہ اس وقت تک پی ٹی آئی پر پابندی عائد ہوچکی ہوتی۔ ایک طرف سیاسی مخالفین تحریک انصاف کا کچھ نہ کچھ بھلا ضرور چاہتے ہیں مگردوسری جانب عمران خان ہیں جو اپنے ہی ہاتھوں اپنی پارٹی کو درگور کرنے پر تْلے ہوئے ہیں۔

9 مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھیردیا ہے۔ کھلاڑیوں کی وکٹیں خزاں کے موسم میں سوکھے پتوں کی طرح اڑنے لگی ہیں اور خدشہ ہے کہ اگرکپتان نے اپنی روش نہ بدلی تو اْنکی سیاست کا بھی عنقریب دی اینڈ ہونیوالا ہے۔عمران خان اب بھی سیاسی بلوغت کا مظاہرے کرنے کی بجائے یوٹرن مارنے میں مصررف ہیں۔ وہ ملکی مفاد کا نہیں اپنی کرسی کا رونا رورہے ہیں۔ پوری پارٹی اور پارٹی رہنما زیر عتاب ہیں مگرخان صاحب کا اقتدار کا نشہ اْترہی نہیں رہا۔ کل تک امریکا پرسازش اور پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کا الزام دھرنے والے سابق وزیراعظم عمران خان اب امریکا سے ہی جھولی پھیلا کر مدد کی التجا کررہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی امریکی کانگریس خاتون میکسین مور واٹرز کے ساتھ زوم میٹنگ پر ہونے والی گفتگو لیک ہوگئی ہے جس میں وہ ان سے مدد کی اپیل کررہے ہیں۔ عمران خان اقتدار میں تھے تو ملک اور اس خطے کی خوشحال کے ضامن سی پیک منصوبہ کو ناکافی تلافی نقصان پہنچا۔ انکے دور میں پاک چین راہداری سے جڑے دیگر منصوبے مکمل ٹھپ ہوئے جس کی وجہ سے گوادر سمیت بلوچستان بالخصوص اور ملک کے دیگر حصوں میں بالعموم ترقی کا پہیہ رک گیا۔

2018 میں ملک کی باگ دوڑ تحریک انصاف کے حوالے کرکے عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تب سی پیک اوراس سے جڑے دیگر منصوبوں پر کام تیزی سے جاری تھا۔ گودار اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کا خواب پورا ہوتے ہوئے نظر آرہا تھا۔ یہاں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہورہے تھے۔ یہاں کے مکینوں کیلئے روز گار کے بہترین موقع میسر ہونے والے تھے کہ کسی دشمن کی طرح یہاں بجلی اور صاف پانی کی فراہمی سمیت دیگر تمام منصوبوں پر ایک دم بریک لگادی گئی۔ منصوبے ٹھپ ہونے سے ترقی کا خواب چکنا چور ہوا اور سب قابل اعتماد دوست ملک چین کو بھی ناراض کیا گیا۔ پاکستان مخالف لابی اور طاقتیں بھی یہی چاہتی تھیں۔

سی پیک منصوبے روز اول سے پاکستان مخالف قوتوں کے آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔ دشمن نے خوشحالی کے اس میگا منصوبے کو ناکام بنانے کی بے تحاشا کوششیں کیں مگراسے ہر بار منہ کی کھانا پڑی۔ مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے وہ کام کردیا جو دشمن بھی نہ کرسکا۔ انہوں نیسی پیک کے منصوبوں کو روک کر پاکستان مخالف قوتوں کے عزائم کو پورا کیا۔ گوادر کو ملکی بجلی کے ترسیلی نظام سے منسلک کرنے کیلئے تربت پنجگور ٹرانسمیشن لائن پر تعمیراتی کام 2018ء میں روک دیا گیا۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن گوادرا?ج تک ملکی بجلی کے ترسیلی نظام سے منسلک نہیں۔ گوادر کو ایران سے بجلی کی سپلائی جاری ہے۔ یہ سوچ طلب بات ہے کہ کونسی ایسی قوتیں ہیں جنہوں 2018ء میں گوادر کیلئے ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر رکوادی تھی۔ یہی نہیں بلکہ گوادر کو پانی کی سپلائی کیلئے تعمیر ہونے والے ڈیم کا باقی ماندہ کام بھی رکوایا گیا۔ ان دونوں منصوبوں پر چارسال بعد دوبارہ کام شروع کردیا گیا ہے۔ 9مئی کے واقعات نے پوری قوم کی آنکھیں کھول دیں۔ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ دیکھیے۔ 2019ء میں پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک اتھارٹی قائم کی مگر اس اتھارٹی کے بننے کے بعد سی پیک منصوبوں پر ایک ڈالر خرچ نہیں ہوا وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال کو ایک بریفنگ کے دوان انتہائی دْکھی پایا کہ پی ٹی ا?ئی کے دور حکومت میں دوران سی پیک اور ملکی معاشی ترقی کا پہیہ روکنے کیلئے کیا کھلواڑ کئے گئے۔یہ صرف سی پیک کی دلخراش داستان نہیں ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کے دور میں وفاقی ترقیاتی منصوبے ترجیح میں شامل ہی نہ تھے۔ وفاقی ترقیاتی منصوبوں کیلئے پہلے تو سرے سے کوئی پلاننگ ہی نہیں ہوئی۔ پھر اگر کہیں کوئی پراجیکٹ منظور ہوا بھی لیکن اس کیلئیفنڈز جاری نہیں کیے گئے۔

وزارت ترقی و منصوبہ بندی کے مطابق 2018ء میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کا حجم ایک ہزار ارب روپے سالانہ تھا جو تحریک انصاف کے دور میں کم کرکے 550 ارب روپے کردیا گیا۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے اتنی کم رقم اس وقت بھی نہیں رکھی گئی تھی جب پاکستان نے اپنی سالمیت کیلئے ایٹمی دھماکے کیے۔ یعنی سابق دور میں ترقی کے پہیہ کو مکمل طور پر روکنے کی بھی سازش کی گئی۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان خود کو عقل کل اور سب سے بڑا محب وطن ہونیکا ڈھونگ رچاتے رہے۔ وہ اپنے آپ کو قوم کا غمخوار، امانت دار اور پاپولر لیڈر کہتے رہے مگر ان کی وجہ سے ملک اور قوم کو جو بھگتنا پڑا عمران خان کے اقدامات اور حکمت عملی کے نتیجے ملکی سیاست اور معیشت پر کاری ضرب لگی ہے۔اس نقصان کی تلافی دو تین عشروں میں بھی نہیں ہوگی۔

ملک کی گھمبیرسیاسی صورتحال میں اچھی بات یہ ہے کہ وزارت منصوبہ بندی وترقی نے اپنی پوری توجہ سی پیک پر مرکوز کردی ہے۔ وفاقی حکومت نے سی پیک منصوبوں کو بحال کرنے اور خزانے پر بوجھ بنی،چار سال میں صفر کارکردگی دکھانے والی سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی نے اس حوالے سے سمری بھی وفاقی کابینہ کو ارسال کردی ہے۔ سی پیک اتھارٹی کے اختیارات سی پیک سیکرٹریٹ کو منتقل کیے جائیں گے اور تین بڑے منصوبے بھی شروع کیے جائیں گے۔ وزارت منصوبہ بندی کے مطابق قراقرم ہائی وے کی تعمیر بھی سی پیک کے تحت ہوگی۔ اس حوالے سے چین کے ساتھ معاملات بھی طے ہوچکے ہیں۔

اسی ہفتے ہم نے دیکھا وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کا دورہ کیا اور پاک ایران بارڈ پر ایران کے صدر کے ہمراہ اپنی نوعیت کی پہلی اور تاریخی مارکیٹ کا افتتاح کیا۔ اس اقدام سے نہ صرف دونوں ملکوں کواپنی تجارت کو فروغ دینے کا موقع ملیگا بلکہ پاک ایران تعلقات میں بھی مزید وسعت ملے گی۔ ایسے خوش آئند اقدامات اور فیصلے یقینا معاشی گھٹن اور تعفن زدہ سیاسی ماحول میں خوشگوار جھونکا ہے۔ حکومت وقت کے پاس قلیل وقت ہے کیونکہ چند ماہ بعد ملک میں عام الیکشن ہونے والے ہیں۔ ایسے میں نگران سیٹ اپ سے پہلے حکمران جماعتوں کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے جن سے نیم جان معیشت میں جان آسکے اور عوام کو ریلیف مل سکے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں