یہ بات اب بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک کو معاشی اور آئینی صورتحال سے بڑا مسئلہ بے قابو سیاست درپیش ہے۔ ایسی خوفناک سیاست جس کا کہیں پاوں نظر آتا ہے نہ ہی سر۔ یہ بے سمت طوفان ہے جو ملک کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ اداروں کو تصادم پر اکساتا ہے لہٰذا کسی بڑے تصادم سے پہلے اگر اسے اب بھی روکا نہ گیا تو شاید پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔یہ المیہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے نام، نامور قانونی ماہرین ، تجربہ کار سیاستدان سب کے سب خوفناک کھیل کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ بھلا ہو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا جس نے تباہ کن سیاست اور خطرناک اندیشوں کا ادارک کرتے ہوئے بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کیلئے نہ صرف ثالثی کی پیشکش کی بلکہ اسلام آباد سے لاہور اور لاہور سے اسلام آباد کئی چکڑ کاٹے۔ وہ وزیراعظم شہباز شریف سے ملے، سابق وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی اور دونوں جماعتوں کو میز پر بیٹھنے کی مخلصانہ اور سنجیدہ آفر کی۔ چونکہ اس مرد قلندراورا نکے مربی کی نیت نیک ہے اس لیے ان کی کوشش بارآور ہونے کی قوی امید ہے۔
ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران کے خاتمے کے مثبت اشارے ملنے لگے ہیں۔ آئندہ ہفتہ جسے ٹرننگ ویک قرار دیا جارہاہے جس سے ملک میں ایک سال سے جاری سیاسی، آئینی اور معاشی بحران ٹلنے کے آثار نظرآرہے ہیں۔ ایک طرف سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کیلئے نیم آمادگی ظاہر کی گئی تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی لیول پلئینگ فیلڈ کی بات کر کے گھمبیر صورتحال کے آگے بندھ باندھنے کا گرین سگنل دیا۔ سماعت کے دوران انہوں نے یہ مثبت رائے بھی دی کہ سیاسی جماعتیں مطمئن ہوں تو لیول پلینگ فیلڈ فراہم کریں گے۔سپریم کورٹ کی جانب ایسا مثبت اشارہ ملنا ہر حوالوں سے حوصلہ افزا ہے کیونکہ آئینی بحران کی اصل وجہ دراصل سیاسی بحران ہے۔یہ سیاسی بحران کی کوکھ ہی ہے جس سے موجودہ آئینی بحران نے جنم لیا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب تک سیاسی افراتفری اور انتشار ختم نہیں ہوتا معاملہ بلا تعطل طول پکڑتا رہے گا۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق جماعت اسلامی کی کوششوں کی بدولت برف پگھلنے کے واضح امکانات ہیں۔ بات آگے بڑھنے کی امید ہے۔ لیکن سر منڈواتے ہی اولے پڑنے کا اندیشہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عین ایسا ہی ہوا مخالفین سے مذاکرات کے معاملے پر پی ڈی ایم اتحاد میں دھڑہ بندی کی خبریں گردش کرنے لگیں۔اتحادی حکومت میں شامل جے یو آئی کی جانب سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے تحفظات سامنے آ گئے۔ خود سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نیعمران خان سے بات چیت کرنے کی مخالفت کی۔ان کا یہ موقف ہے کہ مذاکرات سیاستدانوں سے ہوتے ہیں،عمران خان سیاست دان نہیں۔ مولانا صاحب سب سے سینئر اور سنجیدہ سیاست دان ہیں۔ وہ بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر وقت آئین کے تحفظ اور جمہوری اصولوں کی بات بھی کرتے ہیں۔ دیر یا بدیر وہ بھی مذاکرات پر قائل ہوں گے۔اسی لیے انہیں منانے کیلئے وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو خود ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے اور مولانا کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی۔
سیاست لچک کا نام ہے اور سیاستدان کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتے۔مشکل ترین ایشوز کو مل بیٹھ کر حل کرنے کا فن ہی سیاست کہلاتی ہے۔ اسی لیے امید کی جاتی ہے مولانا صاحب آج نہ سہی کل ملکی مفاد کے خاطر اپنے سینے کو مزید چوڑا کرکے روایتی سیاست کو جاری و ساری رکھیں گے۔تاریخ بھری پڑی ہے کہ جب بھی کسی ملک یا قوم پر اندرونی مشکلات سے دوچار ہوئی تو وہاں کے قانون دانوں اور سیاستدانوں نے قومی امنگوں کے مطابق کردار ادا کیا۔
زمینی صورتحال دیکھی جائے تو اس وقت مذاکرات کی سب سے زیادہ ضرورت اتحادی حکومت کی بن چکی ہے کیونکہ معاشی پہیہ رکا ہوا ہے۔ صنعتی شعبہ کی کمر ٹوٹ چکی۔ ایکسپورٹ کا گراف مسلسل نیچے آرہا ہے۔ طاقت کا محور۔عوام۔ مہنگائی سے بے حال ہیں۔ ادارے آپس میں گھتم گھتا ہیں جو کسی بھی ریاست کیلئے اچھا شگون نہیں ہے۔یہ صورتحال کسی بھی طرح کسی بھی حکومت کے فیور میں نہیں ہے۔اور اگر چھ ماہ یا سال کے اندر ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہوں توایسی صورتحال کو حکمران جماعت کیلئے سیاسی موت قرار دی جاتی ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کے سبب عوام موجودہ حکمرانوں سے سخت نالاں ہیں اور وہ ووٹ کے ذریعے وہ انتقام لے سکتے ہیں۔ لہٰذا پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جماعتوں کو اگر عوام کے غیض و غضب سے بچنا ہے تو انہیں آ?ٹ آف باکس کچھ اقدام کرنا ہوں گے۔ چونکہ سیاسی ، معاشی اور آئینی بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کر کے یہ جماعتیں ٹرمپ کارڈ حاصل کرسکتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ وقت کے حاکم اس وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود اور عوام پر مہربان ہوجائیں۔ ریاست کو مضطرب حالات سے آزاد کراکراور عوام کچھ ریلیف دلا کر شہباز سرکار کے پاس دل جیتنے کا یہی موقع ہے جو اسے کسی بھی صورت گنوانا نہیں چاہیے۔ نائیں اور نفرتیں ختم کرکے ایک دوسرے کو گلے لگایا جائے۔
دوسری جانب پاکستان کے عوام شومئی قسمت دیکھیے۔ غریبوں کو ریلیف دینے اور مہنگائی کے خاتمے کا نعرہ لگا کر سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے عوام کو ہی ٹف ٹائم دیدیا تھا۔ موصوف نے آئی ایم ایف اور کچھ دوستوں کو راضی کرنے کیلئے ڈالر کوایسی کھلی چھوٹ دینے کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔عوام کو ریلیف دینے اور معاشی سمت درست کرنے میں ناکامی پر مفتاح اسماعیل کو کراچی کا ر خ کرنا پڑا۔ مفتاح اسماعیل صاحب جاتے جاتے ائیرپورٹ پر خصوصی پروٹوکول اور سیکورٹی کی موجودگی میں بیگوں کے تذکرے چھوڑ گئے۔ شاید یہی وجہ تھی کی کچھ عرصہ قبل ڈائریکٹر جنرل ائیرپورٹ سیکورٹی فورس کو بلا کر خصوصی بریفنگ بھی لی گئی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار جن سے قوم کی ساری امیدیں جڑیں ہیں مگرسیاسی و آئینی الجھنوں کے باعث وہ معیشت کودرست کرنے کیلئے مطلوبہ توجہ نہیں دے پارہے۔ آئی ایم ایف کی بلیک میلنگ اور مذموم مقاصد کے باوجود وزیر خزانہ اسحاق ڈارزرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری لانے میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ساورن ویلتھ فنڈ سمیت ملکی معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کیلئے کئی منصوبوں پر کام شروع کرنے کیلئے مضطرب ہیں مگر سیاسی حالات اور اپنوں کی ناعاقبت اندیشیاں ا نکے پاوں کی بیڑیاں بنی ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار انتہائی پرامید ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر بھنور میں پھنسی ملکی معیشت کی کشتی کو نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں خاطر خواہ بہتری اور مہنگائی کو لگام ضرور ڈالیں گے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے سیاسی اور آئینی بحران سے نکلنے کے بعد جس دن معاشی پلان پرعمل شروع کرنے میں کامیاب ہوگئے تویقین مانئیے ٹرننگ ائیر کا آغاز ہوجائے گا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں