ملکی معاشی صورتحال،زرمبادلہ کے ذخائراورخوفناک مہنگائی نے پورے نظام کو ہلا کررکھ دیاہے۔ معیشت کو ڈی ریل کرنے والوں کا تو ابھی تک احتساب شروع نہیں ہوا مگر عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری کی شکل میں ہرروز اس کی قیمت چُکا رہا ہے۔شہر اقتدارمیں آئی ایم ایف کی ٹیم کڑے مطالبات کیساتھ ڈیرے ڈالے ہوئےہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرکے پہلے معاہدہ کیا اور پھر گذشتہ سال اقتدار کی رُخصتی بھانپتے ہوئے معاہدے کی دھجیاں بکھیردیں۔ مقصد صرف ایک تھا کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافےکےباوجود عوام کو سستا پٹرول فراہم کیاجائے۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں کو بھی منجمند رکھا جائے تاکہ عوام حکومت کے گُن گائیں۔ پی ٹی آٗئی حکومت نے وقتی عوامی تائید تو حاصل کرلی مگر عالمی مالیاتی ادارے کیساتھ معاہدے کی خلاف ورزی اور مالی نظم وضبط کی دھجیاں بکھیرکرکے ہر جانب بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں۔اب ان بارودی سرنگوں سے عوام محفوط ہیں،حکومت اور نہ ہی اپوزیشن۔ تمام مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان کی امداد کرنے کا اعلان کرنے کےبعد ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے ہیں کہ پہلے آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ کریں پھر پاکستان کی امداد کریں گے۔
ایسے حالات میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے سامنے حکومت مکمل طور پر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ وزارت خزانہ کی ٹیم عوام کو مہنگائی سے قدرے بچانے کی کوشش کرتی ہےتو آئی ایم ایف کی ٹیم ناراض ہوجاتی ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم کی کڑی شرائط حکومت مان لے تو رہی سہی عوامی حمایت بھی ختم ہوتے دکھائی دینے لگتی ہے۔آئی ایم ایف کی ٹیم نے ناقابل یقین مطالبات کی فہرست حکومتی ٹیم کے سامنے رکھ دی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی ٹیم اور حکومت کے مابین ہونے والے تکنیکی مذاکرات کے پہلے دور کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کو اقرار کرنا پڑا کہ آئی ایم ایف ہماری سوچ سے بہت زیادہ سخت شرائط عائد کررہا ہے۔ نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف وفد نے 31 جنوری کو نویں جائزے کی تکمیل پر حکومت کے ساتھ حتمی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔بڑے مالیاتی خلا کی نشاندہی اور اس ے پُر کرنے کے طریقوں پر چار روزہ بات چیت اسلام آباد میں ہوئی جس میں 7 سے زائد محکموں کے نمائندے موجود تھے۔
مذاکرات میں اخراجات کی تفصیلات اور آمدن کی کارکردگی پر گفتگو ہوئی تا کہ موجودہ مالی سال کے آئندہ 4 ماہ کے دوران لیے جانے والے ریونیو اور غیر ریونیو پالیسی اقدامات کی نشاندہی کی جاسکے۔
آئی ایم ایف کا سب سے مشکل مطالبہ بجلی کے لائف لائن یعنی 300 یونٹ سے کم خرچ کرنے والے صارفین کا استثنیٰ ختم کرنا ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں پاکستان کے 88 فیصد بجلی کے صارفین 300 یونٹ ماہانہ کی کیٹگری میں شامل ہیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافے سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوگا۔آئی ایم ایف کی ٹیم کو وزارت خزانہ کی جانب سے درمیانی راستہ نکالتےہوئے یونٹ کی حد کو 300 سے کم کر کے 200 کرنے کی تجویز دی گئی مگر مالی نظم وضبط کی ماضی میں سنگین خلاف ورزیوں کے باعث اب آئی ایم ایف اس تجویز کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کی نظر میں معیشت کو سب سے بڑا خطرہ توانائی کے شعبے کی خراب کارکردگی سے ہے جس کا گردشی قرض 29 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔اس رقم میں مزید اضافہ آئی ایم ایف کے لیے باعث تشویش ہے۔ اور امکان ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے جائیں گے جس میں برآمدی صنعتوں کو توانائی پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
صنعتکار پہلے ہی توانائی کی سبسڈی کے ممکنہ خاتمے پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن آئی ایم ایف نہ صرف بڑی مقدار میں گردشی قرض میں کمی چاہتا ہے بلکہ اسے دوبارہ بڑھنے سے بھی روکنے کا خواہاں ہے۔آئی ایم ایف کا ایک اور بڑا مطالبہ ڈیزل پر موجودہ پیٹرولیم لیوی 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرنا ہے جو 15 فروری کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے متوقع اعلان میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ملکی تاریخ کا یہ سب کڑا اور خطرناک شرائط کیساتھ معاہدہ تولازمی کرنا پؕرے گا مگراس صورتحال سے نکلنے اور دوبارہ اس گھڑے میں گرنےسے بچنے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے اس میں ملک میں سیاسی استحکام اور میثاق معیشت لازم ہے بصورت دیگر سب کو خوفناک نتائج کیلئے تیاررہنا چاہئے۔
اب کام ایک کڑوی گولی سے نہیں بلکہ کڑوی گولیوں کے کئی ڈبوں سے حل ہوگا مگر یہ گولیاں صرف عوام نہیں بلکہ حکمرانوں اور اشرافیہ کو بھی کھاکر عوام کے دُکھوں کو قدرے مداوا کرنا پڑے گا۔
حالیہ اعلی سطحی اجلاس کے دوران کچھ وفاقی وزراء نے احتجاج کیا ہے کہ حکومتی شخصیات نمائشی پروٹوکول کی آڑ میں عوام کے غم وغصے میں مزید اضافے کا موجب بن رہےہیں۔ یہی نہیں بلکہ کابینہ ارکان اسی پروٹوکول کے چکرمیں قومی پرچم کی توہین میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔حکومتی شخصیات کی گاڑیوں پر غروب آفتاب کےبعد پرچم لہرا کر توہین کی جارہی ہے۔ مشیران اور معاون خصوصی کا گاڑیوں پر قومی پرچم لہرانا فیلگ رولز کی خلاف ورزی ہے۔ صرف وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت اپنی گاڑیوں پر قومی پرچم لہرا سکتے ہیں۔سیکورٹی کے نام پر گاڑیوں کے بڑے قافلوں کی بجائے متبادل اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے قومی کفایت شعاری کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ 15 روز میں پروٹوکول میں کمی اور قومی پرچم کے لہرانے سے متعلق سفارشات پیش کی جائیں۔
اسی طرح توشہ خانہ پالیسی کے ذریعے بھی کچھ موثر اقدامات کی تیاری کرلی گئی ہے جس سے مال مفت دل بے رحم کا تصور ختم ہونے کے قریب پہنچ گیاہے۔ نئی پالیسی کےتحت غیرملکی سربراہان سے کروڑوں روپے مالیت کی گھڑیاں اور لگژریاں گاڑیوں کے تحائف وصولی پر پابندی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
غیرملکی سربراہان سے 500 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ لینے پر پابندی عائد ہوگی۔یہ تجویز سابق سیکرٹری کابینہ ڈویژن سرداراحمد نواز سکھیرا نے امریکی صدر سمیت دیگر عالمی رہنماون کے لئے وضع کردہ اصول کی روشنی میں پیش کی تھی جسے پانچ ماہ کی لیت ولعل کے بعد بالاخر کڑوی گولی سمجھ کر قبول کیا جارہاہے۔ نئی پالیسی میں مفت تحفہ گھر لے جانے کا راستہ اگرچہ ہموار کرلیا گیا ہے مگر ایسے تحفے کی مالیت 30 ہزار روپے تک ہونا شرط رکھی گئی ہے۔ وزیراعظم نے دونوں تجاویز توشہ خانہ پالیسی میں شامل کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ اس کیساتھ گذشتہ 20سالوں کا توشہ خانہ کے تحائف کا ریکارڈ پبلک کیا جائے گا۔ تحائف کی اصل مالیت کا تعین کرنے کے بعد آکشن ہو گا اور آکشن سے وصول ہونے والی رقم بیت المال یا فلاحی تنظیموں کو دی جائے گی۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں