مشکلات کے باوجود آزاد جموں و کشمیر میں بلدیاتی الیکشن کے تمام مراحل کامیابی سے مکمل ہوگئے۔ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھرپور الیکشن مہم چلائی اور شہریوں نے غیرمعمولی جوش و خروش سے الیکشن میں حصہ لیا۔پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ آزاد کشمیر میں یکساں طور پر اثر و رسوخ، پارٹی نیٹ ورک اور موثر لیڈرشپ رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ان تینوں جماعتوں نے حالیہ الیکشن میں معقول تعداد میں ووٹ اور بلدیاتی اداروں میں نشستیں حاصل کیں۔ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، مسلم کانفرنس،جماعت اسلامی اور تحریک لبیک نے بھی اچھی خاصی نشستیں حاصل کیں۔
الیکشن میں 10 ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کی بہت بھاری تعداد نے بھی ذاتی اثر ورسوخ اورسماجی خدمت کے ریکارڈکی بدولت کامیابی حاصل کی۔ تاہم قوم پرست جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں کیونکہ وہ نظریہ پاکستان یا الحاق پاکستان کے حلف نامہ پر دستحط کرنے کو تیار نہ تھیں، جس پر الیکشن قوانین کے مطابق امیدوارکو دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے 27 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں پولنگ سٹیشنوں پر مقامی پولیس کی مدد کے لیے سیکیورٹی اہلکار فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انہیںپاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی وجہ سے اسلام آباد میں پولیس درکار تھی۔اگرچہ اگلے دو مراحل میں مقامی انتظامیہ کی مدد کے لیے پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری فراہم کردی تھی۔مقامی سیکیورٹی فورسز،الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کو پہلے مرحلے پر الیکشن کرانے پر بہت پذیرائی ملی۔
کچھ سیاسی جماعتوں کے لیڈران انتظامی اور مالی اختیارات کو جمہوریت کے نچلے درجے تک منتقل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ چند سرکردہ لیڈروں نے الیکشن سے بھاگنے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم بلدیاتی الیکشن کے حق میں اٹھنے والی زبردست عوامی لہر کے ہاتھوں وہ مجبور ہوکر وہ بھی انتخابی عمل کا حصہ بن گئے۔
مجموعی طور پر انتخابات آزادانہ ماحول میں ہوئے۔ کسی پارٹی یا شخصیت نے دھاندلی کے الزامات نہیں لگائے۔ ماضی کے برعکس وفاقی حکومت یا کسی ریاستی ادارے نے انتخابی عمل میں مداخلت کی اور نہ ہی کسی امیدوار یا پارٹی کی پشت پناہی کی۔
وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا پی ٹی آئی نے بھرپور استعمال کیا۔ 2100 کے قریب امیدواروں کو پی ٹی آئی کی جانب سے ضلعی اور وارڈ کونسلوں کے ٹکٹ جاری کیے گئے۔ نتیجتاًیہ بلدیاتی الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔باغ اور میرپور میں اسے عوام نے دوٹوک مینڈیٹ دیا۔
البتہ اسے پی پی پی اور نون لیگ کے اتحاد کی بدولت اکثر ضلعوں اور شہروں میں مقامی حکومتیں بنانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے رہا ہے۔آزاد امیدوار فیصلہ کن حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ جس پلڑے میں وہ وزن ڈالیں گے وہ پارٹی سرخرو ہوجائے گی۔
وقت آگیا ہے کہ اچھی حکمرانی اورشہریوں کو بہتر خدمات کی فراہمی میں منتخب نمائندوں کاکرداد موثر بنانے کے موضوع پر گفتگو کا آغاز کیا جائے۔موجودہ بلدیاتی ایکٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔1980 کی دہائی میں منصہ شہود پر آنے والایہ ایکٹ کونسلروں کو مطلوبہ انتظامی اختیارات اور مالی وسائل کی منتقلی کو یقینی نہیں بناتا ۔ اگر یہ ایکٹ نہ بدلا تو منتخب نمائندے بیوروکریسی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائیں گے۔ آزاد کشمیر کا آئین باقاعدہ اور بلاتعطل الیکشن کے انعقاد کو آئینی تقاضا یا ذمہ داری قرار نہیں دیتا۔ یہ مبہم طور پر بلدیاتی سسٹم کی حوصلہ افزائی کی بات کرتا ہے۔آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی تاکہ الیکشن کمیشن عدالت عظمیٰ کے حکم کا انتظار کیے بغیر وقت پر بلدیاتی الیکشن کرائے اور کوئی بھی حکومت اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکاسکے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی مشاورت سے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے لائحہ عمل پیش کرے۔
اس وقت تمام انتظامی اور مالی اختیارات کا گھنٹہ گھر وزیر اعظم کا دفتر ہے۔ فنڈز اور ترقیاتی سکیموں کی تقسیم وزیراعظم یا طاقتور وزراء کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ فنڈز کی غیر مساوی تقسیم کی شکایات عام ہیں۔ کئی ایک اہم منصوبوں پر محض اس لیے توجہ نہیں دی جاتی کہ ان منصوبوں کی پشت پر کوئی سیاسی شخصیت کھڑی نہیں ہوتی۔ فنڈز کا بڑا حصہ ممبران قانون ساز اسمبلی کے ہاتھوں استعمال ہوتاہے۔ترقیاتی سکیموں کے وجود اور بجٹ کا زمین پر شفاف استعمال کو چانچنے کا کوئی طریقہ نہیں کیونکہ آزادکشمیر میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانو ن ہی نہیں۔
اب چونکہ بلدیاتی نظام تشکیل پاچکا ہے۔ ارکان اسمبلی کے ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ کمی کی تحریک کی جانی چاہیے۔ ان فنڈز کا کم ازکم پچاس فی حصہ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، مقامی حکومتوںکی مالی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے حکومت آزاد کشمیر کو مقامی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جمع کیے جانے والے ریونیو کا ایک معقول حصہ بلدیاتی اداروں کو دینا ہوگا۔ ضلعی فنانس بورڈ بھی قائم کیا جانا چاہیے۔ تاکہ تمام اضلاع کو ان کے رقبہ، آبادی اور پسماندگی کے مطابق مالی وسائل سے حصہ ملے۔
بلدیاتی اداروں کے لیے کوئی فزیکل انفراسٹرکچر موجود نہیں ۔ شہروں،ضلع کونسلوں، تحصیل اور ٹاؤن کمیٹیوں کے سربراہوں کے دفاتر کی بحالی ناگزیر ہے تاکہ یہ لوگ پر سکون طریقہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔آزاد جموں و کشمیر کے عوام کا خیال ہے کہ آنے والا بلدیاتی نظام شہری خدمات کی فراہمی کے معیار اور رفتار کو بہتر کرے گا۔فیصلہ سازی کے عمل میں شہریوں کی شرکت سے عام لوگوں کے لیے سماجی و اقتصادی ترقی کے دروازے کھلیں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں