بائیڈن کو کیا ہوا؟ سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کو خطرناک ملک قراردیا اور کہا کہ اس کے جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں اس بیان پر کہرام برپا ہوا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے کہا کہ امریکی صدر نے جو کچھ کہا وہ نیا نہیں۔حکومت پاکستان نے امریکی سفیر کو دفترخارجہ طلب کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ٹیویٹ کے ذریعے دنیا کو باورکرانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ ہیں اور صدر بائیڈن کا بیان گمراہ کن ہے۔دنیا بھر کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور امریکی سفیر کی طلبی کی خبریںمرچ مصالحے لگا کر بیان کی جارہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا اچانک کیا ہوا کہ جو امریکی صدرپھٹ پڑے۔انہوں نے ایسے موضوع پر گفتگو کی جس پر اہل پاکستان بہت حساس ہیں۔غالباً انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا روس کے خلاف ووٹ نہ دینا بہت برا لگا۔ گزشتہ چند ماہ کی سفارتی کوششوں سے پاکستان کے امریکہ سے تعلقات دوبارہ پٹڑی پر چڑھ گئے تھے۔ اعلیٰ سطحی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کی ملاقاتوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان روایتی گرم جوشی بھی بڑی حد تک لوٹ آئی تھی۔ خاص کر سیلاب کی تباہ کارویوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نے مدد دی اور دیگر ممالک کو بھی پاکستان کی مدد پر آمادہ کیا۔ ایف ۱۶ طیاروں کے پرزے فراہم کرنے کا اعلان کرکے پاکستان کے روایتی حریفوں کے تن من میں آگ لگائی۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر بھی غیر معمولی طورپر متحرک ہیں۔ ایک طویل عرصے بعد امریکی سفیر پاکستان کے مختلف الخیال طبقات سے مل رہے ہیں ۔ دوطرفہ تعلقات کار کو بہتر بنانے اور ان میں نئی روح پھونکے کی کوشش کررہے ہیں۔
صدر بائیڈن کے بیان نے دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر پیدا ہونے والی گرم جوشی کو بڑا دھچکا لگایا ہے۔ پاکستان اس وقت ایک عبوری دور سے گزررہاہے جہاں سیاسی اور عسکری لیڈرشپ میں تبدیلی جلد متوقع ہے۔ حکومت اور اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کے درمیان ڈیڈلاک ہے۔ایک طر ح سے ملک بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکا رہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ کئی دہائیوں سے پاک امریکہ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔حالیہ افغان جنگ کے دوران امریکہ پاکستان کا بیک وقت حلیف بھی تھا اور حریف بھی ۔ آج بھی امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے عدم تعاون کی وجہ سے افغانستان میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
پاکستان میں بھی امریکہ مخالف لابی کافی توانا ہے۔ گزشتہ پچھہتر برسوں میں امریکہ نے کئی اہم مواقع پر پاکستان کی مدد نہیں کی بلکہ بھارتکے لئے نرم گوشہ رکھا۔ خاص کر پاکستان کا ایٹمی پروگرام دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا مرکز رہاہے۔ نوے کی دہائی کے اخبارات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام منجمد کرنے کے لیے بہت بڑی بڑی مالی پیشکشیں کیں۔ ڈرایا اور دھمکایا بھی بہت۔لیکن پاکستان نے جوہری طاقت بن کر ہی دم لیا۔
چین اگرچہ امریکہ کا شروع دن سے نشانہ رہاہے لیکن ستر کی دہائی میں امریکہ کی توجہ سوویت یونین کو سبق سکھانے پرمرکوز ہوئی۔چین کو اپنی معیشت کو ترقی دینے کی چھوٹ اور سہولت دی گئی۔ امریکہ اور یورپ چین کی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی بن کر ابھرے لیکن گزشتہ ایک دہائی سے چین کی معاشی اور فوجی طاقت امریکہ کی آنکھ میں کھٹکنا شروع ہوئی۔ خاص طور پر چین اور روس کے تعلقات امریکیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ گزشتہ صدارتی الیکشن مہم میں جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں مسلسل عوام کو باور کراتے رہے کہ چین امریکہ کا دشمن نمبر ون ہے۔ برسراقتدار آکروہ اسے سبق سکھائیں گے۔ حال ہی میں جو امریکہ کی نیشنل سیکورٹی پالیسی سامنے آئی اس میں بھی کہا گیا کہ چین کی عسکری اور فوجی قوت کو روکنا امریکہ کی ترجیحات میں سرفہرست ہے ۔
چین اور روس مخالف رائے عامہ مغربی دنیا میں ایک صدی سے پائی جاتی ہے لیکن یوکرائن پر روسی حملے ، تائیوان کے ساتھ چین کی کشیدگی اور چین کی جارحانہ معاشی اور سفارتی پالیسیوں نے مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کو زبردست طیش دلایا۔ وہ اب دنیا کو رفتہ رفتہ دوبارہ بلاکوںمیں تقسیم کرنا شروع ہوچکا ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک ، جاپان اور آسٹریلیا اس کے ہم نوالہ ہم پیالہ ہیں۔بھارت بھی ان کا لنگوٹیا ہے لیکن روس پر اس کا انحصار بہت زیادہ ہے لہٰذا روس کے خلاف کھل کر کھیلنے پر تیار نہیں۔ چین کے خلاف بھی مغربی مہمات کا حصہ بننے سے کتراتاہے ۔ حال ہی میںلداخ میں جاری سرحدی جھڑپوں کو نہ صرف روک دیا بلکہ چین اور بھارت کی فوج نے جنگ بندی معاہدہ بھی کرلیا۔
پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنا چاہتاہے۔ روس کے ساتھ معمول کے تعلقات بھی اس کی ترجیح ہیں۔اسی پس منظر میں پاکستان نے یوکرائن پر روسی حملے اور بعدازاں اس کے مقبوضہ علاقوں کو روس میں ضم کرنے کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی حمایت کی نہ مخالفت۔ ظاہر ہے کہ امریکی صدر کو پاکستان کا یہ طرزعمل اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے بھی جوابی طور پر جوہری ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہونے کا رااگ الاپ کر پاکستان کو اذیت میں مبتلا کیا۔
حال ہی میں امریکہ میں قائم پاکستان اسٹڈی گروپ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ واشنگٹن سے قبل اپنی حکومت کو مشورہ دیاکہ امریکہ خطے میں پاکستان کے مفادات کو تسلیم کرے۔ پاکستان میں سرمایا کاری کرے تاکہ چین کا اثر کم کیا جاسکے۔ موسمیاتی مسائل میں بھی پاکستان کی مدد کرے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے تعاون سے میکانزم بنایا جائے۔ اس پس منظر میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں نمایاں بہتری گزشتہ چند ماہ کے دوران آئی۔امید ہے کہ صدر بائیڈن کے بیان کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان جاری گرم جوشی قائم رہے گی کیونکہ تعلقات میں بہتری دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
متضاد خیالات کے باوجود کئی ایک ایسے امور ہیں جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان میں ہماری ترجیحات مختلف ہیں لیکن بہت سارے امور پر اتفاق رائے بھی ہے مثال کے طور پر یہ کہ ملک دوبارہ دہشت گردوں کا مرکز نہ بنے، ایک ایسا نکتہ جہاں دونوں ممالک کو تعاون کرنا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرانے اور کشمیر جیسے مسئلہ کو حل کرانے میں امریکہ ہماری مدد کرسکتا ہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں