ایک بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے منعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے دوران اچانک سناٹا چھا گیا۔ اجلاس میں شریک وزراء اور افسران ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھاکہ چھ ماہ کے بعد بھی کسی کے پاس کوئی موثر حل اور تجاویز نہیں ہوں گی۔ وزیراعظم کے احکامات کےباوجود وزیر موصوف اور متعلقہ افسران کے پاس کوئی ایسا سُپر فارمولہ نہیں ہوگا جس سے حکومت کی ساکھ کسی حد تک بچ سکے۔ اگر کوئی حل موجود نہیں ہے توحکومت عوام کو کیا منہ دکھائی دے گی۔ 40منٹ گذرنے کے بعد بھی کوئی موثر تجویز سامنے نہ آئی تو وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے برہمی کااظہار شروع کردیا۔
وزیر خزانہ کی بے چینی اور پریشانی بھانپتے ہوئے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک اپنی پٹاری سے ایک نسخہ نکالتے ہوئے بولے کہ موسم سرما میں اضافی درآمدی گیس کا بندوبست نہیں ہوسکا۔ گیس بحران سے بچنے کا واحد حل ایل پی جی ہے مگر مارکیٹ میں ایل پی جی کی وافر سپلائی نہ ہونے کے باعث یہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجائے گی۔ ایل پی جی کی وافر سپلائی یقینی بنانے کیلئے ہمیں صرف ایک کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ مارکیٹ فورسز ایران سے اسملگل شدہ ایل پی جی کی کی بھرمار کردیں گی اور یوں موسم سرما میں حکومت عوامی تنقیدسے بچ جائے گی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی برہمی نے اجلاس میں چھائی پن ڈراپ سائلنس توڑ دی۔ حکومت سے اسمگلنگ کی توقع ہی کیسے کی جاسکتی ہے؟کیا اب بحران آنکھیں بند کرنے سے حل ہوں گے؟حکومت نے معاشی سرگرمیوں کے فروغ کیساتھ ٹیکس وصولیاں بڑھانی ہوتی ہیں ایسے میں اسمگلنگ کا تصور ہی کیسے کیا جاسکتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈٓار کے پے درپے سوالات کے باعث اجلاس میں ایک مرتبہ پھر سناٹا چھا گیا۔
مخلوط وفاقی حکومت کو اقتدار کی مسند سنبھالے 6ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا مگر ابھی تک آؤٹ آف دی باکس کسی بھی مسئلے کا حل پیش نہیں کیا جاسکا۔ بیشتر معاملات آنکھیں بند کرنے سے حل کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث پہلے ہی بے روزگاری،غربت میں اضافہ جبکہ معاشی شرح نمو بُری طرح متاثر ہوچکی ہے ایسے میں موسم سرما میں حکومت نے اب ہاتھ کھڑے کردئیے ہیں کہ گیس کا بندوبست نہیں ہوسکا لہذا گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین گیس لوڈشیڈنگ کیلئے تیارہوجائیں۔ دو روز قبل وزیراعظم نے بھی اعلان کردیا کہ درآمدی گیس بہت مہنگی ہوچکی جس کے باعث ہم موسم سرما میں اضافی گیس کا انتظام نہیں کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ اگر گیس کا بندوبست نہیں ہوسکا تو مستقل وفاقی وزیر سے محروم اہم ترین پیٹرولیم ڈویژن کے ذمہ داران پر ذمہ داری عائد کیوں نہیں کی گئی۔ زبانی جمع خرچ سے عوام کا دل وقتی طور پر تو بہلایا جاسکتا ہے مگر موسم سرما جس اذیت کا سامنا عوام کوکرنا پڑے گا اور جس قدر معاشی سرگرمیاں متاثر ہوں گی تو کس سے جوابدہی ہوگی۔
یقین مانئیے 50ملین کیوبک فٹ سے زائد ملکی سستی گیس موجود ہے مگر پٹرولیم ڈویژن میں موجود درآمدی گیس کو سپورٹ کرنے والے عناصر اس گیس کو سسٹم میں شامل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پیٹرولیم اور پاور ڈویژن میں بدترین بدانتظامی عروج پر ہے۔ افسران نے وزراء کو سہانے خواب دکھا کر مخصوص لابی کے مفادات کا تحفظ کیا ہوا ہے۔ جب کبھی کسی نے سوال کیا توہم جواب دیدیں گے کہ اگر مسئلہ حل کرنا ہے تو آنکھیں بند کرلیں یا پھر سامری جادوگر سے رابطہ کریں تاکہ یہ ملک اور قوم بحرانوں سے نکل سکے، ہمارے پاس اسکے سوا کوئی حل نہیں۔
حکومتی بے بسی اور بدانتظامی کی ایک اور داستان بھی پڑھ لیجئے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ دعووں اور نعروں کے باوجود عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے کیوں جارہے ہیں۔ یکم ستمبر کو وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے زاہد میر کوایم ڈی اوجی ڈی سی ایل تعینات کرنے کی منظوری دی۔ زاہد میر تیل وگیس کی ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن میں ایک میں بڑا نام رکھتے ہیں۔ اوجی ڈی سی ایل میں پہلے بھی ایم ڈی کے عہدے پرشاندار خدمات سرانجام دے چکے جس کے باعث اوجی ڈی سی ایل پاکستان سٹیل ملز کی طرح مالی طورپر تباہ ہونے سے بچ گئی۔ زاہد میراس وقت پاکستان ریفائنری میں بطور ایم ڈی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
زاہد میر کا پی آر ایل میں تین سالہ ایم ڈی شپ کا دوسرا دور شروع ہوچکاہے۔ اس عرصے کےدوران پی آرایل نے اپنی تاریخ میں ریکارڈ منافع کمایا ہے جبکہ زاہد دوارب ڈالر کے لگ بھگ اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی شروع کرچکے ہیں۔ زاہد کے تجربے اور صلاحیتوں کی بدولت وفاقی کابینہ نے انہیں تین سال کیلئے اوجی ڈی سی ایل کا ایم تعینات کرنے کی منظوری دی تاکہ اوجی ڈی سی ایل پاکستان میں تیل وگیس کیساتھ دیگر شعبوں میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکے مگر مخلوط وفاقی حکومت نے اپنے ایک اتحادی نوابزادہ شاہ زین بگٹی کی ناراضی کے سامنے قومی مفاد سرنڈر کرتے ہوئے زاہد میر کی تعیناتی کا ابھی تک نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکی یعنی حکومت نے وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک کے فارمولے پر عمل کرتےہوئے ایک ماہ دس روز سے آنکھیں بند کررکھیں ہیں۔ دراصل او جی ڈی سی ایل کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شاہد سلیم نے بلوچستان میں شاہ زین بگٹی کی ملکیتی 2500 ایکڑ زمین کے کرایے میں 36 فیصد اضافہ کر دیا تھا جس سے خزانے پر 8 ارب روپے کا بھاری بوجھ پڑے گا۔
او جی ڈی سی ایل کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد میر نے 2016 میں 1300 ایکڑ زمین کی لیز کو برقرار رکھا لیکن 2,500 ایکڑ زمین مالکان کے حوالے کر دی کیونکہ اس کی لیز سے سرکاری ایکسپلوریشن اور پروڈکشن کمپنی پر غیر مطلوبہ مالی بوجھ پڑ رہا تھا۔ اسی بات پر شاہ زین بگٹی خائف تھے۔ اب جب وفاقی حکومت نے زاہد میر کو دوبارہ اوجی ڈی سی ایل کا ایم ڈی تعینات کرنے کی منظوری دی تو صرف ایک حکومت اتحادی نے وفاقی کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد رکوادیا۔
قومی خزانے سے جُڑے ایک اور معاملے پر بھی پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ای این آئی پاکستان کے 400ملین ڈالر سے زائد مالیت کے تیل وگیس کے اثاثوں کو اونے پونے دام پریعنی 16اعشاریہ 4ملین ڈٓلر کے عوض پاکستان انٹرنیشنل آئل اینڈ گیس کمپنی کو فروخت کرنے اور قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں مبینہ طور پر 75ملین ڈالر نقصان پہنچانے پر وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھا تھا۔ وزیراعظم نے نوٹس بھی لیا مگر پیٹرولیم ڈویژن نے مطلوبہ کاروائی کی بجائے آنکھیں بند کرلیں۔ای سی سی نے اگرچہ گذشتہ اجلاس میں اس سمری کی منظوری نہیں دی مگر پیٹرولیم ڈویژن کے اعلی افسران دن رات کوششوں میں مصروف ہیں کہ ملک میں گیس بحران حل ہو یا نہ ہو مگر ای این آئی کمپنی کو فروخت کرنے کی جلد ازجلد منظوری لازمی دلوائی جائے۔ ملکی وقومی مفاد کا کیا ہے،کچھ دیر کیلئے آنکھیں ہی تو بند کرنی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں