امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم مظفر آباد میں، سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

دارالحکومت مظفرآباد اور باغ میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلو م کے تین روزہ دورے کو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھاگیا۔ یہ دورہ کئی ایک اعتبار سے غیر معمولی تھا کیونکہ لگ بھگ چھ سال بعدکسی امریکی سفیر نے مظفرآباد کا دورہ کیا۔ پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں اس دورے کو سفارتی حلقوں بالخصوص بھارتی ذرائع ابلاغ نے بہت اہمیت دی اور طرح طرح کے کڑوکسیلے تبصرے بھی کیے۔

امریکی سفیر نے سوشل میڈیا پراپ ڈیٹس کے ذریعے علاقے کی خوبصورتی، روایتی مہمان نوازی اور نوجوانوں کی ذہانت اورمحنت کی کھل کرتعریف کی۔ انہوں نے آزادکشمیر کو دنیا میں مثبت طور پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکی سفیر لگ بھگ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملے۔ آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی میں انہوں نے سترہ برس قبل آنے والے زلزلے میں شہید ہونے والے طلبہ اور اساتذہ کو یاد کیا۔ اس یونیورسٹی میں امریکی تعاون سے 2007 میں لنکن کارنر قائم کیا گیا تھا جہاں طلبہ کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے امریکی تعلیمی اداروں سے استفادہ کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
مظفرآباد کے نواح میں ایک گیسٹ ہاؤس ہے جسے انگریزوں کے زمانے میں ڈاک بنگلہ کہا جاتا جاتاتھا۔آج کل اسے قائداعظم ریذیڈنسی سے پکارا جاتا ہے۔ قائداعظم نے 1944میں سری نگر میں لگ بھگ تین ماہ قیام کیا تھا۔ وہ سیالکوٹ سے جموں تشریف لے گئے جہاں پورا شہر ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے امنڈآیاتھا۔

واپسی کا سفر انہوں نے سری نگر راولپنڈی روڑ پر کیا۔ دوران سفر انہوں نے ایک رات مظفرآباد میں بسر کی۔ کہتے ہیں قائداعظم نے رات ڈاک بنگلے میں قیام کیا وہاں آج کل بریگیڈ کمانڈر کا دفتر ہے۔ امریکی سفیر نے قائداعظم ریذیڈنسی میں کافی وقت گزارا اور ایک ٹویٹ بھی کیا بلکہ قائداعظم کے اس کوہالہ روڑ پر سفر کا ذکر بھی خوب کیا۔سوشل میڈیا پر اس کا بڑا چرچا ہوا۔
باغ میں
CareCloud

کے نام سے قائم یو ایس ہیلتھ کیئر آئی ٹی سروسز کمپنی بلامبالغہ پرائیویٹ سیکٹر میں اس خطے میں روزگار فراہم کرنے والا یہ سب سے بڑا ادارہ ہے۔ آزادکشمیر ہی نہیں بلکہ میڈیکل کے شعبہ میں پاکستان کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ جس کے 2525 ملازمین ہیں۔جن میں20فیصد خواتین ہیں۔امریکی پلٹ ایک مقامی شہری محمود الحق نے جو اس ادرے کے مالک اور بانی ہیں نے سفیر ڈونلڈ بوم کو بتایا کہ کس طرح تنکا تنکا جھور کر انہوں نے یہ عظیم الشان کمپنی کھڑی کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں آباد کشمیریوں کی مدد سے ایک نہیں ایسی درجنوں مزید آئی ٹی کمپنیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں جہاں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ باعزت روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ ذرا سی توجہ سے مزید امریکی کمپنیوں کو آزادکشمیر لایا جاسکتاہے۔ اسلام آباد، پشاور اور لاہور سے جغرافیائی قربت،امن وامان کی بہتر صورتحال، متوسط طبقے کی موجودگی اور ٹیک سیوی نوجوان کی بڑی تعداد کی وجہ سے آزادکشمیر کو غیر ملکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام بننا چاہیے۔ بقول شاعرذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔

وزیر اعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس خان جو خود بھی ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے اعزار میں دیئے گئے عشائیہ میں اس خطے میں سیاحت، ہائیڈل، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی کے لئے درکار امریکی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ آزادکشمیر میں شرح خواند گی دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت دنیا کی معیاری اور معتبرتعلیمی اداروں سے شراکت داری کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ وزیراعظم نے امریکی سفیر کو تجویز دی کہ وہ آزادکشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کے لیے امریکہ کی یونیورسٹیوں کے ساتھ اکیڈمک ایکسچینج پروگرام شروع کرانے میں کردار ادا کریں تاکہ کشمیری طلبہ کے لیے معیاری عالمی یونیورسٹیوں کے دروازے کھل سکیں۔

حکومت پاکستان نے گزشتہ چند سالوں سے آزادکشمیر میں غیرملکی سیاحوں آمد کو بڑی حد تک آسان بنایا ہے۔ کئی ایک سیاحوں نے مظفرآباد اور پونچھ کی دلکش وادیوں کا دورہ بھی کیا۔ اور بڑے دلچسپ وی لاگ بھی کیے۔ غیر ملکی سفارت کار بھی کبھی کبھار مظفرآباد آتے جاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر اقوام متحدہ کے پاکستان میں نمائندے نے حالیہ چند ماہ میں دوبار مظفرآباد کا دورہ کیا۔ اس سلسلہ کو مزید موثر بناناچاہیے۔ سیکورٹی اداروں کے جائز تحفظات کو پیش نظر رکھ کر ایسا میکانزم بنایاجائے جو غیر ملکی سیاحوں کی سلامتی کو بھی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر غیر ملکیوں سیاحوں کی کشمیر آمد کی حوصلہ افزائی کرتا ہو۔

آزادکشمیر کی ترقی کی کنجی بیرون ملک آباد کشمیریوں کے ہاتھوں میں ہے۔گیلپ پاکستان نے جولائی 2021 میں خطے کی سماجی، معاشی اور سیاسی طرزفکر جاننے کے لیے آزاد جموں کشمیر میں سروے کرایا۔

سروے کے مطابق 39 فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کے قریبی خاندان سے کوئی فرد بیرون ملک رہتا ہے۔ 33 فیصد نے کہا کہ ان کے قریبی خاندان کا کوئی فرد کشمیر سے باہر لیکن پاکستان کے بڑے شہروں میں رہتا ہے۔اس مطلب ہے کہ ستر فی صد آبادی کا کوئی نہ کوئی فرد پاکستان کے بڑے شہروں یا بیرون ملک آباد ہے۔ یہ لوگ کشمیر کا سرمایا ہیں جو غیر ملکی سرمایاکاری لانے اور سیاحت کی ترقی میں پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جس طرح محمود الحق نے اتنا بڑا ادارہ قائم کیا کئی ایک اور لوگ بھی ایسے معجزے کرسکتے ہیں بشرطیکہ انہیں سازگار حالات دستیاب ہوں۔

سیاحت کی ترقی اور غیر ملکی سرمایاکاری کے لیے ضروری ہے کہ جنگی بنیادوں پر اس خطے کے ان مسائل کو حل کیا جائے جو سیاحت اور سرمایاکاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ مثال کے طور پر راولپنڈی سے آزادکشمیر بالخصوص راولاکوٹ، کوٹلی اور ڈوڈیال جانے والی سڑکیں لگ بھگ کھنڈر بن چکی ہیں۔ ان پر سیاح تو دور کی بات ستر ماڈل کی جیب چلانے کا بھی کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔اسی وجہ سے پورے ملک سب سے زیادہ ٹریفک حادثات آزادکشمیر میں ہوتے ہیں۔
ہمارے ہمسائیہ ممالک میں فائیو جی انٹرنیٹ شروع ہوچکا ہے۔ کشمیر میں ابھی 2 جی اور 3 جی چل رہاہے۔

وفاقی حکومت کو ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جو کشمیر میں تیر رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی میں حال ہیں۔ امریکی سفیر تین دن تک آزادکشمیر میں رہے لیکن اس دوران خوشگوار پاک امریکہ تعلقات کے مخالف حلقوں اور ممالک کو یکساں طور پرسخت تکلیف رہی۔ کیونکہ اس دورے میں سیاسی لیڈرشپ اور سول سائٹی کے نمائندوں نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کی طرف امریکی سفیر کو متوجہ کیا۔ آمد ورفت کا یہ سلسلہ جاری رہ سکا تو دنیا زیادہ بہتر طور پر کشمیریوں کے دکھوں اور مصائب کا ادراک کرنے لگے گی۔ یہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کے حریفوں کو ہضم نہیں ہوتا۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں