آزادجموں و کشمیر کی حکومت نے ایک کھرب 63 ارب کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے مسلسل رواں مالی سال میں آزادکشمیرکو چودہ ارب روپے کم فراہم کرنے کا عندیہ دیا جاتا رہا۔ یعنی یہ کہاجاتا رہا ہے کہ وفاقی حکومت 74.320 ارب روپے فراہم کرنے کے بجائے محض 60 ارب روپے فراہم کرے گی۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم سردار تنویرالیاس خان اور ان کی ٹیم کی کوششوں اور وزیرامور کشمیر قمر الزمان کائرہ کے ہمدردانہ رویہ کے نتیجے میں بالاآخر وفاقی حکومت نے پورا بجٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس طرح آزادکشمیر کا مالیاتی بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔
یاد رہے کہ 2018 ء میں وفاقی اور آزادکشمیر حکومت کے مابین طے پانے والے ایک مالیاتی معاہدے کے مطابق
Federal Distribution of Divisible Pool
آزادکشمیر کا حصہ میں
3.64فی صد طے پایا تھا۔ چونکہ آزادکشمیر قومی مالیاتی کمیشن کا رکن نہیں لہٰذا اسے این ایف سی ایوارڈ سے دیگر صوبوں کی طرح حصہ نہیں ملتا۔ چنانچہ اس معاہد ے کے مطابق وفاقی حکومت 74.320ارب روپے رواں مالی سال میں فراہم کرنے کی پابند ہے۔ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی وفاقی حکومت الگ سے رواں سال اٹھائیس ارب روپے فراہم کرے گی۔ الحمدا للہ! تذبذب کی کیفیت تمام ہوئی ۔ چونکہ اس وقت اسلام آباد میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے لہٰذا ان دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ کوآزادکشمیر کے مالیاتی وسائل اور ترقیاتی منصوبوں میں حکومت آزادکشمیر کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ اسے عدم استحکام کا شکارکرنا چاہیے۔
دوسری جانب حکومت آزاد کشمیر کو بھی اپنے انتظامی ڈھانچہ میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اس مالی سال میں ایک کھرب 63ارب میں سے محض 28.5ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوں گے۔ وہ بھی وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔ جب کہ 135.2ارب روپے تنخواؤں، پنشن، پٹرول اور دیگرانتظامی اخراجات کی نذر ہوجائیں گے۔ یہ افسوسناک سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ حکومت کو عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر کم ازکم ساٹھ فی صد بجٹ صرف کرنا چاہیے۔ انتظامی اخراجات میں نمایاں کٹوتی کیے بغیر آزادکشمیر معاشی طور پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔
دستیاب سیاسی اور معاشی حالات میں یہ بجٹ غنیمت ہے ۔ بجٹ میں نوجوانوں اور خواتین کے لیے قرضہ سکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ خواتین کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کے لیے 30 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ۔ وزیرخزانہ عبدالماجد خان نے بجٹ تقریر میں اس عزم کا بھی اظہار کیاکہ خواتین کے لیے ٹورزم اور صنعت و حرفت کا سپیشل اکنامک زون قائم کیا جائے گا۔ نوجوانوں کو کاروبار کے لئے 70 کروڑ روپے کی رقم سے کاروبار شروع کر نے کے لیے قرض دیا جائے گا۔ اس طرح کے منصوبے معاشرے کے پسے ہوئے طقبے کو اوپر اٹھاسکتے ہیں اگر ان پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہوگیا تو۔
موجودہ حکومت نے آزادکشمیر کے ٹیکس ڈیپارمنٹ کو 36.5ارب کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دیا ہے۔ اگرچہ یہ کافی بڑا ہدف ہے لیکن جس کامیابی سے گزشتہ تین برسوں میں آزادکشمیر کے محکمہ ان لینڈ ریونیو کے حکام نے ٹیکس اہداف حاصل کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ یہ ہدف بھی آسانی سے حاصل کرلیں گے۔ چند سال قبل آئین میں کی جانے والی تیرہویں ترمیم کی بدولت آزادکشمیر کو بڑی حد تک مالی استحکام حاصل ہوا ہے۔ وزارت امور کشمیر کی بے جا مالیاتی مداخلت اور کشمیریوں کے ٹیکس سے جمع ہونے والی رقم کا من مانا استعمال رک گیا ہے۔ علاوہ ازیں آزادکشمیر کے ٹیکس دیپارئمنٹ نے پہلے کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ لیکن وزارت امور کشمیر کے طاقت ور افسران ابھی تک اپنے اختیارات چھن جانے کے صدمہ سے باہر نہیں نکلے۔ ان کی سر توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح دوبارہ آزادکشمیر کا مالیاتی کنٹرول حاصل کرکے عوام کے خون پسینہ کی کمائی کومال مفت دل بے رحم کی ماند ہڑپ کرجائیں۔ اطمینان کاپہلو یہ ہے کہ اس حوالے سے آزادکشمیر کی موجودہ حکومت باخبر اور ہوشیار ہے۔
بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بجٹ میں بظاہر کوئی رقم مختص نہیں کی گئی جس پر سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے ایک ارب روپیہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس میں تیس کروڑ روپے پہلے ہی حکومت نے الیکشن کمیشن کو فراہم کردیئے ہیں۔ محکمہ مالیات نے تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے کہ جوں ہی الیکشن کمیشن الیکشن کرانے کے عمل کو آگے بڑھاتا جائے گا اسے بتدریج بقیہ رقم بھی فراہم کردی جائے گی۔ سپریم کورٹ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ہونے والے والی پیش رفت کی مسلسل نگرانی کررہاہے۔ مقتدر حلقے بھی بلدیاتی الیکشن کرانے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اگست یا ستمبر میں بلدیاتی الیکشن ہوجانے چاہیں۔ بلدیاتی الیکشن کرانا پی ٹی آئی کے الیکشن منشور کا بھی اہم جزو تھا اور الیکشن مہم بھی اس وعدے کو جلد پورا کرنے کا لیڈرشپ نے باربار عہد کیا تھا۔
وزیراعظم سردار تنویر الیاس خان جوان سال ہیں۔ کاروباری طبقہ سے ان کا تعلق ہے۔مقتدر حلقوں اور سیاسی اشرافیہ کے ساتھ سماجی اور کاروباری بندھن میں بھی بندھے ہوئے ہیں ۔ شہریوں کی ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ خاص طور پر عام شہری چاہتا ہے کہ وہ غیر معیاری انفراسٹرکچر، غیرمعیاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے ان کی جان چھڑائیں۔ کچھوئے کی رفتار سے جاری ترقیاتی منصوبوں کو بقول ’’ ریاض ملک ‘‘ پہیہ لگائیں۔ آسمانوں کو چھوتی بے روزگاری سے شہریوں کو نجات دلائیں۔ سرکاری بھرتیوں کے بجائے وہ صنعت، سیاحت اور آئی ٹی کے نت نئے منصوبے قائم کرکے نوجوانوں اور بالخصوص خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند ہوچکی ہے لیکن انہیں روزگار کا کوئی موقع میسر نہیں۔
مظفرآباد جو اگر چہ آزادکشمیر کا دارلحکومت ہے لیکن دہائیوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ حکمران ہی نہیں سرکاری افسران بھی اسلام آباد میں قیام اور طعام فرمانا پسند کرتے ہیں۔ اکثر تومستقل طور پر وہاں ہی رہائش پذیر ہیں۔ جمعہ کی شام مظفرآباد لگ بھگ سنسان ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم موجود نہ ہوں تو مظفرآباد میں کوے بولتے ہیں ۔اس مسئلہ کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سرکاری افسران اور وزراء کی اپنے دفاتر میں موجودگی سے ہی اچھی حکمرانی قائم ہوسکے گی۔ عوام کی توقع ہےکہ موجودہ حکومت اچھی حکمرانی کی نئی مثالیں قائم کرنے میں کامیاب ہوگی۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں