اسلامو فوبیا مغرب کو لے ڈوبے گا سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

کینیڈا میں دو دہائیوں سے آبادپاکستانی نژاد خاندان کی ایک سفیدفام نسل پرست عیسائی نوجوان نتھینیل ویلٹمین کے ہاتھوں المناک ہلاکت نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عالم مغرب کوبھی د ہل کر رکھ دیاہے۔ قاتل اس خاندان کو جانتاتک نہ تھا،اس کے باوجود اس نے پورے خاندان کو ایک گاڑی تلے کچل دیا۔آخرکیوں؟ اس لیے کہ اس نوجوان کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف غم اور غصہ بھرا ہواتھا۔نہ جانے کب سے نفرت کی آگ میں وہ جلتا رہا۔غالباً اس نوجوان نے چند ہفتے قبل فلسطین میں بھی مسلمان عورتوں،مردوں اور بچوں کے قتل کے مناظردیکھے ہوں گے۔مغربی دنیا نے جس بے باکی سے اسرائیلی جارحیت کی پشت پناہی کی اور اسے کسی بھی قسم کی سزادینے یا اس کا محاسبہ کرنے کی بجائے،اس کے ظالمانہ حملوں کوجنگی جرائم قراردینے کی بجائے،انہیں دفاعی نوعیت کے اقدامات قراردیاگیا۔اس عالمی طرزفکر نے قاتل سمیت دنیا بھر کے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ کمزور طبقات بالخصوص مسلمانوں کا لہو بہانا قابل گرفت جرم نہیں بلکہ ان عالمی پالیسیوں کا تسلسل ہے،جن کے نتیجے میں عراق،شام،لیبیا اور افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔
سرد جنگ کے بعد مغربی دانشوروں اور دفاعی ماہرین نے مسلمانوں کو اگلا ہدف قراردے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں جنگی جنون پیداکیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس جنون کو بڑھاوادیااور خوب مال کمایا۔زیادہ پرانی بات نہیں الجزیرہ نے خبر دی تھی کہ امریکہ میں مسلمانوں کا خوف اور ان کے خلاف نفرت پھیلانا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔عالم یہ ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف گفتگو یا ان کی برگزیدہ ہستیوں کے ہتک آمیز کارٹوں شائع کرنا اور ان کا دفاع کرنا معمول بن چکاہے۔مسلمانوں سے خوف اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول مغرب کی اپنی سلامتی اور یکجہتی کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب مغرب کا ہدف مسلمان کم اور چین زیادہ ہوگیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اگلے کئی عشروں تک چین کے خلاف محاذآرائی کا ڈھول پیٹا جائے گا۔عام شہریوں کو چین کی ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری ہیبت سے خوف زدہ کیا جارہاہے۔ غالب گمان ہے کہ کچھ عرصے بعد مغربی ممالک میں آباد چینی باشندے بھی سفید فام نسل پرستوں کے حملوں کا شکار ہونا شروع ہوجائیں گے کیونکہ وہ بھی نسل پرستوں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔یہ ہو نہیںسکتا ہے کہ کسی ملک کے سیاستدان اور میڈیا نفرت اور دشمنی کا چورن بیچے اور رائے عامہ محبت کے گیت الاپے۔
مغربی دنیا کے عمومی ماحول کے برعکس کینیڈا ایک ایسا ملک ہے جو آج بھی انسانی حقوق کے معاملے پر حساسیت کا مظاہرہ کرتاہے۔بھارت کے کئی ایک اعلیٰ سرکاری عہدے داروں اور سابق فوجی یا پولیس افسران کی ویزے کی درخواستیں کینیڈین حکام نے کئی مرتبہ مسترد کیں۔ان پر مشرقی پنجاب یا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔بھارتی حکومت نے کینیڈا کو بہت ڈرایا دھمکایا لیکن کینیڈین حکومت اور ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں آئے۔کینیڈاکا شمار غالباًدنیا کے ان چند ممالک میں ہوتاہے ،جو آج بھی مظلوموں یا ریاستی جبر کا شکار افراد کو پناہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔
مسلمان خاندان کے قتل کے بعد جس طرح کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور عام شہریوں نے اس معاملے کو ہینڈل کیا،وہ قابل تعریف ہے۔اس طرزفکر سے مایوسی کے عمومی ماحول میں امید کی ایک کرن پھوٹی ہے کہ تمام تر پروپیگنڈے اور تیزی سے پھیلتی ہوئی نفرت کی کالی آندھی کے باوجود ابھی تک دنیا میں زندہ ضمیر معاشرے پائے جاتے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت اور لوگوں نے سوگوار خاندان کا بھرپور ساتھ دیا۔پولیس نے قاتل کو گرفتار کیا اورسرکار نے اسے دہشت گرد قراردیا۔ قتل کی کسی بھی سطح پر جوازیت پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔عام شہریوں نے بڑی تعداد میں مرحومین کی قبروں پر گل پاشی کی۔ ایک بہت بڑا مظاہرہ یا مارچ ان سے اظہار یکجہتی کے لیے کیاگیا۔ کینیڈا کے عام شہریوں اور معاشرے کے فعال طبقات کی طرف سے سامنے آنے والے ردعمل نے یہ حقیقت ایک بارپھر آشکار کی کہ مغربی رائے عامہ میں خیر اور بھلائی کا پہلو غالب ہے۔ان کی ایک بھاری تعداد ظالم کے ساتھ کندھا ملانے کے بجائے مظلوم کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
خود کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو ایک غیر معمولی سیاستدان ہیں۔ انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے اور نسل پرستوں کی سیاسی فکر کے خلاف بہت جرأت مندانہ اقدامات کیے ہیں۔انہیں ہر سطح پر چیلنج کیا۔ کینیڈا نقل مکانی کرنے والے لاکھوں مسلمانوں اور سکھوں کو نہ صرف معاشی میدان میں یکساں مواقع فراہم کیے بلکہ انہیں فیصلہ ساز اداروں ، اسمبلی اور حکومت میں بھی شراکت دار بنایا۔اس طرح کینیڈا ایک کثیر الجہت معاشرہ بن پایا۔ دنیا بھر کے تعلیم یافتہ اور مختلف میدانوں کے ماہرین کے لیے کینیڈا نے دروازے کھولے تاکہ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکے۔ان پالیسیوں نے کینیڈا کو دنیا میں زیادہ مقبول اور مہذب ملک کے طور پر متعارف کرایا۔امید ہے کہ کینیڈین حکومت اور سیاستدان اسلامو فوبیا کے پھیلتے ہوئے خطرے کے آگے بندھ باندھنے کی ملکی اور عالمی سطح پر ٹھوس کوشش کریں گے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جاسکے۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالہ ہے۔ مظلوموں کا ساتھ دینے کا خطرہ مول لینے کو عمومی طور پر کوئی تیارنہیں ہوتا۔ غیر مسلم اقلیتوں پر گزشتہ دو تین دہائیوں میں قیامت گزری ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کسی حد تک اقلیتوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ تھما ہوا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ معمولی ذاتی تنازع پر پوری پوری آبادی پر حملے کیے گئے۔ان کی عزتوں،جان،مال اور املاک کو ریاست تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ شہری ہی نہیں معاشرے کے فعال طبقات نے بھی مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تو درکنار ان کے بارے میں کلمہ خیر بھی نہیں کہا۔ کمزور مسلمانوں اور فرقوں کو بھی مسلسل ہدف بنایاجاتارہا۔ان کے ساتھ بھی کم ہی کسی نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں طرح طرح کے الزامات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
ماضی کریدنے کا کوئی فائدہ نہیں۔پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں غیر مسلم اقلیتوں کی جان ،مال اور عزتوں کے تحفظ میں غیر معمولی بہتری آئی ہے، جس کی تحسین کی جانی چاہیے ۔ سرکاری ملازمتوں اور معاشی ترقی میں بھی عیسائی، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے پیروکار نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے اور بالخصوص پس ماندہ اور درماندہ طبقات کی معاشی اور تعلیمی بہتری کے لیے فکر مند ہے۔یہ سلسلہ جاری وساری رہنا چاہیے۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں