افسر شاہی کا قبلہ؟ سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

ہلکی بوندا باری سے موسم خوشگوار تھا۔ٹریل فائیو سے مارگلہ ہلز کا نظارہ مسحور کن تھا۔ میں بڑے بڑے قدم بھرتا محو واک تھا کہ ایک باریش شخص نے مجھے نام سے پکارا اور کہنے لگا’مجھے انصاف نہ ملا تو میں اپنی جان لے لوں گا‘۔میں اس نا گہانی کیفیت سے گھبرا گیا‘تاہم قریب ہی لکڑی کے بینچ پر انہیں بٹھایا۔ پانی کی

بند بوتل اتفاقاً میرے پاس تھی انہیں پینے کو دی پھر ماجرا پوچھا؟ معلوم ہوا کہ ایک بڑے بیوروکریٹ نے ان کے پلاٹ پر قبضہ کر رکھا ہے‘ جعلی کاغذات بھی بنوا لئے ہیں۔تمام ثبوتوں کے باوجود کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔بزرگوارنے میری طرف تحکمانہ دیکھتے ہوئے کہا ’سیاستدانوں کے کھیل تماشوں پر لکھنے کے بجائے عوام کے مسائل پر لکھیں تاکہ ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکے‘۔ میں انہیں کیسے سمجھاتا کہ سیاستدانوں کے کھیل تماشے ہی تو ہیں جنہوں نے نظام کو ظالم اور عوام کو مظلوم بنا دیا ہے‘ جب تک یہ تماشے ختم نہیں ہوتے‘ بیورو کریسی کا قبلہ درست ہو سکتا ہے اور نہ حکومت عوام کو کوئی ریلیف پہنچا سکتی ہے۔ قارئین یہ واقعہ یوں ذہن میں آیا جب مجھے کچھ دستاویزات موصول ہوئیں جن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے بیوروکریسی کے تعصب کے خاتمے کیلئے بڑا قدم اٹھا یا ہے۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں 5رکنی کابینہ کمیٹی قائم کردی ہے‘جس میں وفاقی وزیر دفاع‘ وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی‘ وزیر انسانی حقوق اور مشیر ادارہ جاتی اصلاحات کو شامل کیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق 9مارچ کو وزیراعظم کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران وزراء نے بیوروکریسی کے خلاف شکایات کے انبار لگادئیے۔ بیوروکریسی حلقوں کے کام نمٹانے میں غیرضروری تاخیر کے ذریعے بڑی رکاوٹ ہے۔وزراء نے

بیوروکریسی کو سیاست دانوں کے خلاف متعصب قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ارکان پارلیمان کوگریڈ سترہ کے افسر سے بھی کم اختیاردئیے گئے ہیں۔ گریڈ سترہ کے افسر کو دستاویز کی تصدیق کااختیار حاصل ہے جبکہ پارلیمنٹرین کو یہ اختیار نہیں دیا گیا۔ ارکان پارلیمنٹ مختلف شعبوں میں طویل تجربہ اورمہارت رکھتے ہیں مگر سسٹم اور بیوروکریسی نے کسی بھی سرکاری کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت سے روک رکھا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اگر کسی سرکاری کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہوگئے تو وہ تاحیات نااہل ہوجائیں گے۔ ماضی میں سیاستدانوں کو بے وقعت کرنے کیلئے جو قانون بنے‘ اب وقت ہے کہ ان تمام قوانین اور قواعد وضوابط پر نظرثانی کی جائے۔ جب تک سسٹم اور بیوروکریسی سیاستدانوں کو سپورٹ نہیں کرتے‘ عوام کے نمائندے انکے مسائل مؤثر طریقے سے حل نہیں کرسکتے۔ سیاسی وابستگی رکھنے والے بیورو کریٹس وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے۔ ارکان نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ عوامی توقعات پر پورا اترنے کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے بصورت دیگر 2023میں پاکستان تحریک انصاف کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم نے وزراء کے مؤقف کی اور کمیٹی تشکیل دی جو اس ضمن میں سفارشات پیش کرے گی۔ تاہم جب تک سیاست دانوں کے کھیل تماشے ختم

نہیں ہوتے‘ بیورو کریسی کا قبلہ درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی حکومت عوام کو کوئی ریلیف پہنچا سکتی ہے۔ اس تازہ مثال سے آپ کو اندازہ ہوسکے گا کہ افسر شاہی وزیراعظم سمیت 50 سے زائد کابینہ ارکان کو کیسے گمراہ کرتے چلے آرہی ہے۔ مجال ہے کہ کابینہ ارکان حکومت کو آئے روز شرمندگی سے بچانے کیلئے ایسے افسروں کے خلاف کارروائی کیلئے کوئی آواز بلند کرے۔ وفاقی حکومت نے ایک سال سے معطل چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان شیخ اختر حسین کو پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر برطرف کرنے کی منظوری دیدی ہے۔وزارت صحت نے اس تعیناتی اور برطرفی میں سنگین قانونی خلاف ورزیوں کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہارکیا ہے۔شیخ اختر حسین کو وزارت صحت کے تگڑے بیوروکریٹس کی آشیر باد حاصل تھی۔ شیخ اختر حسین نے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے سے معطل ہونے کے بعد وزارت صحت کے افسران کو ایسا خبردار کیا کہ کسی نے شیخ صاحب کی فائل کو چھونے کی جرات تک نہ کی۔ دستاویز کے مطابق کمیٹی کی جانب سے دو امیدواروں کے نام میرٹ کی بنیاد پر پالیسی بورڈ کو ارسال کیے گئے۔جن میں شیخ اختر حسین کی تعلیمی قابلیت پی ایچ ڈی‘ ایم فل اور 27 سال کا تجربہ۔عمر55 سال جبکہ میرٹ کے مطابق 83.5فیصد سکور۔میرٹ میں دوسرے نمبر پر موجود عاصم رؤف کی تعلیمی

قابلیت بی فارمیسی‘ ایم فل اور تجربہ 22 سال ‘عمر51سال۔میرٹ کے مطابق82فیصد سکور۔ پالیسی بورڈ کی جانب سے19 جولائی 2018 کے اجلاس میں انٹرویو کمیٹی کی سفارشات کی توثیق کی گئی جس کے بعد وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کی گئی۔وفاقی کابینہ کی جانب سے 21 دسمبر2018کے اجلاس میں شیخ اختر حسین کو ڈریپ کا چیف ایگزیکٹو تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔شیخ اختر حسین کی بطور چیف ایگزیکٹو ڈریپ تعیناتی کے بعد وزارت صحت کو شیخ اختر حسین کی پی ایچ ڈگری کی صداقت کے حوالے سے کئی شکایات موصول ہوئیں۔ وزارت صحت کی جانب سے ڈگری کی تصدیق کیلئے ایچ ای سی سے رابطہ کیا گیا۔ایچ ای سی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اوپن انٹرنیشنل یونیورسٹی کولمبو‘ سری لنکا کی چارٹرڈ یونیورسٹیز انسٹیٹیوٹ میں شامل نہیں۔اس لیے پالیسی کے تحت چارٹرڈ یونیورسٹیز انسٹیٹیوٹ میں شامل نہ ہونے والی یونیورسٹی کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔یوں وزارت صحت کی جانب سے شیخ اختر حسین کو7مارچ2019کے حکم نامے کے تحت بطور سی ای او ڈریپ کام کرنے سے روک دیا گیااور ایڈیشنل ڈائریکٹرعاصم رؤف کومتبادل امیدوار کے تحت سی ای او کا اضافی چارج دیا گیا۔وزارت کی جانب سے 7مارچ2019کا حکم نامہ غلطی تھی اور فیصلے کیلئے وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کی جانی چاہیے تھی۔

وزارت صحت کے پاس ایسا حکم نامہ جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ انٹرویو کمیٹی کی جانب سے شیخ اختر حسین کو اضافی تعلیم کے تحت 8اضافی نمبر دیے گئے تاہم نمبر جاری کرنے سے قبل ایچ ای سی سے ڈگری کی تصدیق کرائی جانی چاہئے تھی جوانٹرویو کمیٹی کی سنگین غلطی تھی۔ بیورو کریسی اپنے جوڑ توڑ جبکہ عوامی نمائندے اپنے کھیل تماشوں میں مشغول ہیں‘ ایک دوسرے کی غلطیاں نکالنے اور نیچا دکھانے میں اڑھائی برس سے زائد کا وقت گزر گیا۔اللہ نے چاہا تو باقی بھی اسی کھینچا تانی میں گزر جائے گا۔۔۔۔

close