’ کورونا وائرس خدا کا عذاب، خدا ہم سے ناراض، خدا کو منا لو، ورنہ کچھ نہیں بچے گا‘ارشاد بھٹی کا کالم

لاہور( پی این آئی) سینئر صحافی ارشاد بھٹی کا کہنا ہے کہ میرےدماغ نے اس بات پر غور شروع کر دیا ہے کہ ’میرا کورونا، میری مرضی‘ بات تو سچ، واقعی غور کریں، نظامِ قدرت ایک ہی آواز لگا رہا، میرا کورونا، میری مرضی، ایک وائرس، 3مہینے، کیا کچھ نہ ہو چکا، مودی کہہ چکا، اللہ،رحمٰن، رحیم، رسولؐ امن کے

سفیر، ٹرمپ 3بار قرآن کی تلاوت سن چکا، ٹرمپ کا بائبل مشیر امریکی کابینہ کو بتا چکا، کورونا وائرس خدا کا عذاب، خدا ہم سے ناراض، خدا کو منا لو، ورنہ کچھ نہیں بچے گا، غرناطہ میں 5سو سال بعد اذان ہو چکی، ویٹیکن سٹی میں پورا دن سورہ رحمٰن چل چکی، آدھا یورپ سجدۂ توبہ کر چکا، اٹلی کا وزیراعظم کہہ چکا، ہمارے پاس سب وسائل مگر ہم بےبس، اب ہمیں آسمانی مدد کا انتظار۔اپنے تازہ ترین کالم میں ارشاد بھٹی تحریر کرتے ہیں کہ ” پرسوں دوپہر ڈرائنگ روم کو کورنٹین کیمپ بنائے بیٹھا تھا کہ شیخو بن بلائے مہمان کی طرح آ دھمکا، بڑی مشکل سے مصافحے، معانقے سے باز رکھ کر 3فٹ کے فاصلے پر بٹھایا، پوچھا، بھائی جان کدھر، تلخ لہجے میں بولا، کدھر کیا؟تمہیں ملنے آیا ہوں، پوچھا، موڈ آف کیوں؟ سگار سلگا، کش لگا کر بولا، موڈ آف نہ ہو تو کیا ہو، اسپتال کورونا ٹیسٹ کرانے گیا، ڈاکٹر کہنے لگا، آپ ہاتھ صابن سے دھوتے ہیں، میں نے کہا، صابن سے تو نہیں، ہاں 3بار کلمہ پڑھ کر دھو لیتا ہوں، ڈاکٹر کہنے لگا۔اس طرح کورونا وائرس مسلمان تو ہو سکتا ہے، مر نہیں سکتا، آپ ہاتھ صابن سے دھو لیا کریں، میں نے کہا، بھائی جان ڈاکٹر نے کون سی غلط بات کہہ دی، آپ ہاتھ صابن سے دھویا کریں، صابن نہیں ہے تو میں خرید دیتا ہوں، زہر آلود نظروں سے گھورتے شیخو نے کہا، تم جیسوں کو دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ واقعی کچھ لوگ حیات نہیں، واہیات ہوتے ہیں اور تاحیات ہوتے ہیں۔میں نے کہا چھوڑیئے یہ سب، بتائیے کیسی گزر رہی، بولا، کورونا کے بعد زندگی پشتو فلم کی طرح ہو چکی، چل تو رہی، پر سمجھ نہیں آ رہی، وہ گانا ہے نا، رُل تے گئے آں، پر چَس بڑی آئی اے، یہاں تو رُل بھی گئے ہیں اور چَس بھی نہیں آ رہی، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے تعویذ جعلی نکل آئے اور محبوب قدموں کے بجائے گلے پڑ جائے۔دکھی، افسردہ شیخو کو دیکھ کر میں نے موضوع بدلا، کہا، پتا ہے Mسیدھا کیوں ہوتا ہے اور Wالٹا کیوں، شیخو سگار کا کش مار کر بولا، نہیں پتا، میں نے کہا، Mاس لئے سیدھا کیونکہ Mسے Man، یہ سیدھا سوچے، Wاس لئے الٹا کیونکہ WسےWoman، یہ الٹا سوچے۔میں تمہیں کل کی بات بتاتا ہوں، میں دوست کو ملنے اس کے دفتر گیا، لفٹ میں داخل ہوا، اتنے میں ایک خاتون بھی بچہ اٹھائے لفٹ میں داخل ہوگئی، میں نے لفٹ کا بٹن دباتے ہوئے فلور کا پوچھا فرسٹ یا سکینڈ، منہ پھلا کر غصے سے بولی، یہ میرا نہیں ہے، میں اس کی پھوپھو ہوں۔شیخو کے چہرے پر مسکراہٹ آئی، سگار کے دو کش مار کر بولا، اچھا یہ بتاؤ، جس شرٹ پر ٹی گر جائے، اسے کیا کہتے ہیں، میں نے کہا، آ پ ہی بتا دیں، کہنے لگا، جس شرٹ پر ٹی گر جائے، اسے ٹی شرٹ کہتے ہیں، میں نے کہا، آپ کو نہیں لگتا، جن کی شادیاں کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوئیں، قدرت نے انہیں غور و فکر کا ایک اور موقع دیا ہے۔بولا، بات میں دم ہے، میں نے کہا، اچھا یہ تو بتائیں، شہزادہ چارلس کو کیوں کورونا ہو گیا، بولا، ڈیانا کی بددعائیں، میں نے کہا، پھر وہ ٹھیک کیسے ہوگیا، بولا، ڈیانا شروع سے ہی بھلی مانس، رحم دل تھی، معاف کر دیا ہوگا، میں نے پوچھا اور ملکہ کیوں محل چھوڑ گئی، بولا، ڈیانا کی وجہ سے، ساری عمر اس پاپی بابی نے ڈیانا کو محل میں سکون سے نہیں رہنے دیا، یہ تو ہونا تھا۔اس سے پہلے میں کچھ بولتا، سگار کے دو کش لگا کر زیر لب مسکراتے شیخو نے کہا، آج تمہیں دیکھ کر مجھے وہ سردار یاد آ رہا جو بلب پر اپنے باپ کا نام لکھ رہا تھا،

کسی نے پوچھا، یہ کیا کر رہے ہو، سردار کا جواب تھا، باپ کا نام روشن کر رہا ہوں، میں نے کہا، بھائی جان آج آپ کو دیکھ کر مجھے بھی وہ شخص یاد آ رہا، جس کی بیوی مری، کچھ دنوں بعد وہ روزانہ بیوی کی قبر پر بیٹھنے لگا، ایک دن گورکن نے آکر کہا۔عمر گزر گئی مگر اپنی بیوی سے یہ محبت کبھی نہ دیکھی، وہ شخص گورکن کو پاس بلاکر بولا، اصل میں بات یہ، میری بیوی مرنے سے پہلے کہہ گئی تھی کہ میری قبر کی مٹی خشک ہونے سے پہلے شادی نہ کرنا، میں اس لئے یہاں بیٹھا ہوں کوئی الو کا پٹھا ہر روزقبر پر چھڑکاؤ کر جاتا تھا، میری بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے شیخو نے کہا، سارا دن کورونا خوف سے گھر میں پڑے رہتے ہو، بور نہیں ہوتے۔میں نے کہا، بھائی جان مرحوم ہونے سے کہیں بہتر ہے بور ہونا، اچھا یہ تو بتاؤ کپتا ن کی کورونا خاتمہ کوششوں پر مطمئن ہو، وگ کے بال سنوار کر شیخو بولا، الحمدللہ وزیراعظم عمران خان کی کوششوں سے کورونا کی آدھی موت ہو چکی، میں نے کہا، کیا کہا، آدھی موت ہو چکی، دیکھو اپنے لیڈر سے محبت کرو، لیکن اس کی بھینس کے گوبر کو حلوہ تو ثابت نہ کرو، اس سے پہلے کوئی اور بات ہوتی شیخو اچانک اُٹھ کر کھڑا ہوا، بولا، اجازت؟میں نے کہا، اجازت تو ہے مگر کورونا کا موسم، احتیاط کریں، شیخو دو قدم چل کر دروازے پر پہنچا، واپس مڑا اور یہ کہہ کر ’’میرا کورونا، میری مرضی‘‘ دروازے سے نکل گیا۔اِدھر شیخو دروازے سے نکلا، اُدھر میرے دماغ نے دوڑنا شروع کر دیا، ’میرا کورونا، میری مرضی‘ بات تو سچ، واقعی غور کریں، نظامِ قدرت ایک ہی آواز لگا رہا، میرا کورونا، میری مرضی، ایک وائرس،

3مہینے، کیا کچھ نہ ہو چکا، مودی کہہ چکا، اللہ، رحمٰن، رحیم، رسولؐ امن کے سفیر، ٹرمپ 3بار قرآن کی تلاوت سن چکا، ٹرمپ کا بائبل مشیر امریکی کابینہ کو بتا چکا، کورونا وائرس خدا کا عذاب، خدا ہم سے ناراض، خدا کو منا لو، ورنہ کچھ نہیں بچے گا، غرناطہ میں 5سو سال بعد اذان ہو چکی، ویٹیکن سٹی میں پورا دن سورہ رحمٰن چل چکی، آدھا یورپ سجدۂ توبہ کر چکا، اٹلی کا وزیراعظم کہہ چکا، ہمارے پاس سب وسائل مگر ہم بےبس، اب ہمیں آسمانی مدد کا انتظار۔واقعی میرا کورونا، میری مرضی، عقل، سائنس، دنیا کے بہترین نظام سب فیل، ٹیکنالوجی نے قدرت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، انسانیت خالق کی طرف متوجہ ہوئی، تیل والے تیل کے کنوؤں پر بےبس بیٹھے ہوئے، دولتوں کے انبار پر موت کا خوف بھاری، شرعی فاصلے قائم ہو رہے، چھینکنے، کھانسنے کے آداب، صفائی کی اہمیت، جسم ڈھک گئے۔جہاں نقاب کرنے پر جرمانہ وہاں اب نقاب نہ کرنے پر جرمانہ، اور یہ سب ایک وائرس نے کیا، ایک نہ نظر آنے والے وائرس نے، یقین جانیے، اگرقدرت کی طاقتوں کا شمار ہو تو کورونا کسی گنتی نہ شمار میں، مگر ٹرمپ، پیوٹن، چین، یورپ، ایٹمی صلاحیتیں، سائنسی عقلیں سب پر ایک کورونا بھاری، قدرت کی آواز سنو، میرا کورونا، میری مرضی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں