دبئی کے حکمران کی 11 سالہ بیٹی کا امریکہ فرار کا منصوبہ ناکام بنانے میں نریندر مودی نے کیا کردار ادا کیا؟ سری نگر سے معروف صحافی افتخار گیلانی کی دل دہلا دینے والی رپورٹ

مارچ 2018۔نئی دہلی میں خبریں گشت کر رہی تھیں ، کہ ستمبر 2016کی طرز پر بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کی ہے۔ اس بار یہ اسٹرائک بحیرہ عرب میں کسی جگہ کی گئی ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی دہلی میں عدم موجودگی اور پورے ایک ہفتے ساحلی صوبہ گوا کے

دارالحکومت پانا جی میں ڈیرہ ڈالنے سے خبرو ں کو اور بھی تقویت مل رہی تھی۔ ملک کی سمندری حدود کراس کرکے یہ آپریشن بحری افواج کے بجائے کوسٹ گارڈز نے کیا تھا۔ خبریں یہ بھی تھیں کہ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لامبا خاصے ناراض تھے اور انہوں نے حکومتی رولز کا حوالہ دیکر وزیرا اعظم نریندر مودی کو شکایت کی تھی کہ بین الاقوامی پانیوں میں فوجی کارروائی صرف بحریہ ہی انجام دے سکتی ہے۔ انہوں نے احتجاج کیا کہ نہ صرف بحریہ کو آپریشن سے دور رکھا گیا ، بلکہ ان کو اسکی بھنک بھی لگنے نہیں دی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کمانڈوز کی یہ کارروائی کسی پاکستانی جہاز کے خلاف نہیں بلکہ ایک امریکہ پرچم بردار لگژری یاٹ نوسٹرومو پر کی گئی تھی۔ چونکہ آپریشن حساس اور خفیہ نوعیت کا تھا، اسلئے دوول نے بحریہ کے سربراہ کے بجائے اپنے ہی صوبہ اتراکھنڈ کے مکین اور قریبی رفیق کوسٹ گارڈ کے سربراہ راجندر سنگھ کو اعتماد میں لیکر آپریشن انجام دیا۔ گو کہ آپریشن خارجی انٹلیجنس ریسرچ اینڈ انیلیس یعنی راء کے کمانڈو دستوں کے انجام دیا، مگر کوسٹ گارڈ کو کور اور دیگر لاجسٹکس کیلئے استعمال کیا گیا ۔ اس امریکی جہاز پر دوبئی کے فرمانروا اور متحدہ امارات کے وزیرا عظم شیخ محمد بن رشید المکتوم کی صاحبزادی شہزادی لطیفہ سوار تھی۔ و ہ اپنی ایک خاتون ٹرینیر فن لینڈ کی ٹینا جاوحیائنین کے ساتھ محل سے فرار ہوکر امریکہ میں سیاسی پناہ لینے کے فراق میں تھی۔ یہ آپریشن شہزادی کو بازیاب کروانے کیلئے متحدہ عرب امارات کی درخواست پر بھارت نے انجام دیا۔ جب اصل کہانی میڈیا پر ظاہر ہونے لگی تو اسکو سختی سے دبادیا گیا۔ دوسال بعد اب ایک برطانوی عدالت نے اس آپریشن کی تفصیلات سے پردہ اٹھایا ہے۔ حال ہی میں ایک لمبی سماعت اور تحقیق کے بعد برطانوی ہائی کورٹ کے جج اینڈریو میک فارلین نے بتایا کہ4اور5 مارچ، 2018ء کی درمیانی رات کو بھارتی سیکورٹی دستوں نے امریکی جہاز کو گھیر کر اسکو قبضہ میں لیا تھا۔ جاوحیائنین کے بیان کے مطابق شہزادی اسکی معیت میں 24فروری کو ہی محل سے فرار ہوگئی تھی۔ اس نے چند دوستوں کی مدد سے امریکہ سے سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ دراصل برطانوی عدالت ایک دوسرے کیس کی سماعت کر رہی تھی ۔ جس میں اسکو دوبئی کے حکمران کے دو بچوں 12سالہ جلیلہ اور سات سالہ زیاد کی کسٹڈی طے کرنی تھی۔ ان کی والدہ شہزادی حیاء ، المکتوم کی دوسری اہلیہ بچوں سمیت دوبئی کے محل سے فرار ہوکر لند ن آپہنچی تھی ۔ اس کا الزام تھا کہ محل میں اسکو اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ شہزادی حیاء اردن کے فرمانراو شاہ عبداللہ دوم کی ہمشیرہ ہیں۔ لندن میں اسکے قیام کو قانونی شکل دینے اور متحدہ امارات کی طرف سے حوالگی کی درخواست کا کاونٹر کرنے کیلئے اردن نے شہزادی کو لندن میں اپنے سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری متعین کرکے اس کیلئے سفارتی استثنا حاصل کرلیا تھا۔ جلیلہ اور زیاد شیخ مکتوم کے سبھی 25بچوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ شہزادی حیا ء نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کے ساتھ بھاگنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ پچھلے سال 11سالہ جلیلہ کا نکاح زبردستی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ کرایا جا رہا تھا۔ مگر شاہی خاندان کے وکیل الیکس وردان نے اس کو سختی کے ساتھ

مستردکرتے ہوئے کہا کہ جلیلہ کی ہی عمر کی شیخ مکتوم کی دیگر 13اولادیں ہیں اور ایک باپ اسطرح کسی بھی صورت میں اولاد کو قربان نہیں کرسکتا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران برطانوی جج نے شیخ المکتوم اور دوبئی کے شاہی محل میں رونما ہوئے ایسے پچھلے واقعات کا نوٹس لیکر جب تحقیق کی تو شہزادی لطیفہ اور اس سے قبل اس کی بڑی بہن شہزادی شمسہ کے فرار اور پھر اغوا اور ان کی قید کی تفصیلات منظر عام پر آگئی۔ کورٹ کے دستاویزات کے مطابق لطیفہ ایک فرانسیسی نژاد امریکی ہروی جوبرٹ کے ساتھ رابطہ میں تھی اور اسی نے فرارا کا منصوبہ بنایا تھا۔ جوبرٹ کی ایک کتاب Escape from Dubai اس سے قبل منظر عام پر آچکی تھی۔ فن لینڈ کی ٹرینر کے بقول شہزادی نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد جوبرٹ کے ساتھ رابط کرنے اور فرار میں مدد دینے کا کام اسکو سونپا تھا۔ المکتوم نے کورٹ کو بتایا کہ جوبرٹ شہزادی کا استحصال کرکے محل تک رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بچوں کے فرار سے زیادہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس سے جڑا ہے۔ امریکی جہاز پر آپریشن تسلیم کرتے ہوئے، شیخ کا کہنا تھا وہ اسکو ایک ریسکو مشن تصور کرتے ہیں۔ خادمہ کے بقول شہزادی نے فرار کیلئے جوبرٹ کو تین لاکھ پونڈ کی رقم ادا کی تھی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اس کے شہزادی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے یا اسکو اغوا کیا جارہا تھا ،بالکل غلط بیانی ہے۔ مگر جوبرٹ کا اپنا ماضی بھی خاصا پراسرار ہے۔ 1993ء تک وہ فرانسیسی خفیہ محکمہ کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔ بعد میں امریکہ میں سیٹل ہوکر اس نے فلوریڈا میں تفریحی آبدوز بنانے کا کارخانہ کھولا۔ اسی دوران متحدہ امارات کے حکمران اکثر اس کے دفتر آتے جاتے رہتے تھے ۔ انہوں نے 2004ء میں اسکو دوبئی کے فلیگ شپ پروجیکٹ پام جمریہ اور ورلڈ آئی لینڈ کا انچارج بنادیا۔ مگر

چار سال بعد اس پر چار ملین ڈالر کے غبن اور ناقص ساز و سامان کی فراہمی کا الزام لگایا۔ دوبئی کی عدالت نے اسکا پاسپورٹ ضبط کرکے اسکے سفر پر پابندی لگادئی۔ اس سے پہلے کہ سماعت مکمل ہوتی اور اسکو جیل میں ڈالدیا جاتا ، جوبرٹ غوطہ خورں کالباس اور اس کے اوپر برقعہ پہن کر ساحل تک پہنچا ۔سمندر کے اندر 6گھنٹے تک تیرنے کے بعد بین الاقوامی پانیوں میں اسکا ایک دوست اور سابق جاسوس ایک کشتی لئے اسکا منتظر تھا۔ جس نے آٹھ دنوں کے بعد اسکو ممبئی کے ساحل پر اتارا، جہاں سے امریکی سفارت خانہ کی مدد سے وہ فلوریڈا روانہ ہوگیا۔ خیر کورٹ کے دستاویزات کے مطابق جب شہزادی محل سے فرار ہوئی تو موسم خاصا خراب تھا اور سمند ر پر شور تھا۔ وہ بارڈر کراس کرکے عمان کے ساحل تک پہنچے، جہاں ان کی ملاقات جوبرٹ اور اسکے ساتھیوں سے ہوئی۔ 15 میل کا فاصلہ ایک ربر بوٹ پر طے کرنے کے بعد انہیں ایک تیز رفتار کشتی میں منتقل کیا گیا اور کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد رات دیر گئے وہ امریکی جہازنوسٹرومو پر پہنچ گئے۔اگلے آٹھ دن جہاز بحیرہ عرب کے پانیوں کو چیرتا رہا۔ چھٹے دن ملاحوں نے اطلاع دی کہ ایک کشتی خاصی دور سے ان کا پیچھا کر رہی ہے اور اس میں سوار افراد دوربین سے مسلسل ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ جہاز نے اب بھارت کے گوا کے ساحل کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع کیا، جہاں چند امریکی اہلکار ان کے منتظر تھے۔ مگر اگلے روز بھارتی کوسٹ گارڈ کے چند ہیلی کاپٹروں نے

جہاز کے اوپر نیچی پروازیں کیں۔ 4اور5مارچ کی رات کو اسلحہ بردار کشتیوں اور ایک جنگی جہاز نے یاٹ کو چاروں طرف سے گھیر کر پہلے فائرنگ اور بعد میں گیس کے گرنیڈ اندر پھینکے۔ جلد ہی چند مسلح نقاب پوش رسیوں کے سہارے جہاز کے اندر داخل ہوئے اور شہزادی کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جاوحیائنین کے مطابق چند لمحوں میں ایک عرب کو جہاز میں اتارا گیا ، جس نے شہزادی اور اس کی شناخت کی۔ ان کو کوسٹ گارڈ کے جہاز میں منتقل کرکے پہلے گوا لے جایا گیااور اسی دن متحدہ امارات کی بحریہ کے حوالے کر دیا گیا۔ فن لینڈ کی ٹرینر کے مطابق شہزادی کے آخری الفاظ تھے۔ ’’مجھے واپس مت بھیجو، مجھے یہیں گولی مار کر سمندر میں پھینک دو۔‘‘ عدالت کی سماعت کے دوران یہ بھی انکشاف ہو اکہ برطانوی شہر کیمبرج میں 2000ء سے پولیس کے پاس لطیفہ کی بڑی ہمشیرہ شہزادی شمسہ کے اغوا کی رپورٹ درج ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق دوبئی شاہی خاندان کے افراد لندن میں اپنے نیو مارکیٹ پیلس میں چھٹیاں گذارنے آئے ہوئے تھے۔ شہزادی گارڈز کو جل دیکر محل سے فرار ہوکر کیمبرج میں ایک ہوسٹل میں پناہ گزین ہوگئی۔ ایک امیگریش افسر ، جو شمسہ سے ہوسٹل میں ملا تھا ،نے پولیس کو بتایا کہ شہزادی سیکورٹی حصار، حد

سے زیادہ ڈسپلن اور پابندیوں سے پر زندگی سے عاجز آچکی تھی اور ایک عام انسان کی زندگی جینا چاہتی تھی۔ اسلئے برطانیہ میں مقیم ہونے کیلئے وہ امیگریش محکمہ سے مدد کی خواستگار تھی۔ مگر اگست 2000ء میں چند عرب افراد نے اس ہوسٹل پر دھاوا بول کر اس کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھاکر اسکے والد کے پیلس نیو مارکیٹ پہنچا دیا۔ محل کے ایک خادم الشیبانی نے پولیس کو بتایا کہ اگلے روز شہزادی کو بذریعہ ہیلی کاپٹر فرانسیسی شہر ڈاوویلا لیجایا گیا ، جہاں ایک پرائیوٹ جیٹ اسکو دوبئی لے جانے کیلئے منتظر تھا۔ برطا نوی قانون دان ٹوبی کیڈمین کی ایما پر اقوام متحدہ کے دو ادارے کمشنر برائے انسانی حقوق اور گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق گروپ ان دونوں واقعات کی تحقیقات کر رہے ہیں ۔ یہ ادارے ابھی تک دو بار بھارت اور اسکے قومی سلامتی مشیر کو نوٹس ایشو کر چکے ہیں۔یہ طے ہے کہ عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسا کوئی آپریشن اگر خطے کے کسی اور ملک نے کیا ہوتا تو مغربی ممالک نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔ اس آپریشن نے یقینا عرب ممالک میں قومی سلامتی مشیر دوول کا قد خاصا بلند کیا ہے۔ اسکے عوض امارات کے حکمران بغیر کسی پس و پیش کے مفرور ملزموں کو بھارت کے حوالے کر رہے ہیں۔آنجہانی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو امارات میں منعقد اسلامی کانفرنس میں مدعو کیا جاتا ہے۔ شہزادی لطیفہ کے اس آپریشن کے فوراً بعد 1993ء کے ممبئی دھماکوں کے ملزم اور مبینہ گینگسٹر دائود ابراہیم کے ساتھی فاروق ٹکلہ کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے بعد برطانوی شہری کرسچین مشعل کو بھی بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ برطانوی شہری اور اسلحہ ڈیلر مشعل نے پچھلی کانگریس حکومت کے دور میں اٹلی کی کمپنی آگستا ویسٹ لینڈ سے وی وی آئی پی افراد کیلئے ہیلی کاپٹر کے تین ہزار کروڑ کے سودے میں دلالی کا

کام کیا تھا۔ 2012ء میں سوئٹزرلینڈ کے حکام نے مشعل کے ساتھی گیوڈو ہاسشکی کے گھر سے ایک ڈائری برآمد کی تھی، جس میں ہاتھ سے لکھے کوڈ الفاظ میں اپوزیشن کی راہنما سونیا گاندھی، انکے خاندان کے دیگر افراد اور انکے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو رشوت دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مشعل نے انکشاف کیا تھا کہ دوبئی کے ایک ہوٹل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے کسی فرد نے اسکو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ سونیا گاندھی اور احمد پٹیل کو اس دفاعی سودے میں ہوئی بد عنوانی میں ملوث کرتا ہے تو بھارت کی طرف سے اسکی حوالگی کی درخواست کو رد کیا جائیگا۔ خیر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے تئیں خوف و ہراس کی فضا، ہندو تنظیموں اور حکومتی عناصر کی طرف سے آئے دن دل آزار بیانات ، شہریت کے نئے قانون اور دہلی کے خون آشام فسادات بھی عرب حکمرانوں کو پسیج نہیں پا رہے ہیں۔ عرب حکمران آخر مودی حکومت کی منہ بھرائی کیوں کر رہے ہیں؟ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ مگر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اجیت دوو ل کے صاحبزادے شوریہ دوول زیوس اور ٹارچ کمپنی کے سربراہ ہیں ، جس کے دیگر حصہ دار سعودی شاہی خاندان کے مثال بن عبداللہ بن ترکی ہیں۔ ان کے ایک اور صاحبزادے وویک دوول جو برطانوی شہری ہیں دوبئی کی ایک کمپنی جیمنی کارپوریٹ فنانس لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں، جس میں ان کے شریک کئی سعودی اور امارات کے شہزادے ہیں۔ بھارت کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ایک ڈی آئی جی منیش کمار سنہا نے سپریم کورٹ میں دائر ایک پٹیشن میں الزام لگایا تھا کہ را کے دوبئی آپریشنز کے انچارج سمانتا گوئل اور منوج پرساد نے دوول کے صاحبزادوں کی کمپنیوں کے تجارتی مفادات کو بڑھانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ ان ہی خدمات کے عوض سمانتا گوئل کو پچھلے سال را کا سربراہ بنایا گیا

۔ اپنے کیرئیرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے دوول کا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا رہا ہے۔ بھارت کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب of Vultures Feast A میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت دوول بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ دوول ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک حساس پروجیکٹ پرکام کر رہے تھے جس کا مقصدکراچی میں کوئی آپریشن کرنا تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں