اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان میں عام انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں میں جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری جانب ایسی مشکل صورتحال میں ملکی معیشت مزید ہچکولے کھاتے نظر آرہی ہے۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج میں پیر کے روز کاروبار کے آغاز سے ایک بار پھر منفی رجحان دیکھا گیا ۔ کاروباری اوقات کے ابتدائی حصے میں ایک سو انڈیکس 13 سو پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 61 ہزار پوائنٹس کی سطح پر آگیا ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال میں ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے اور سرمایہ کار اس وقت محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت کی تشکیل کا جلد فیصلہ نہ ہوسکا تو مارکیٹ کریش کرسکتی ہے۔ کاروباری ہفتے کے پہلے روز پیر کو پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ایک بار پھر مندی کے بادل چھائے رہے، 100 انڈیکس اپنی 62 ہزار پوائنٹس کی سطح سے نیچے آگیا۔ کاروبار کے آغاز سے انڈیکس دباؤ میں دیکھا گیا اور دوران ٹریڈنگ 12 بجے مارکیٹ 13 سو 22 پوائنٹس کمی کے ساتھ 61 ہزار 632 پوانٹس کی سطح پر ٹریڈ کرتی نظرآئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر بھی مارکیٹ میں منفی رجحان دیکھا گیا تھا۔ معاشی امور کے ماہر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال ہے اور حکومت کے قیام میں تاخیر سے مارکیٹ پر مزید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ عبدالعظیم نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ حکومت سازی کے حوالے سے معاملات اگر چند دنوں میں حل نہیں ہوتے تو مارکیٹ کریش بھی کرسکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے سوال پر عبدالعظیم کا کہنا تھا کہ اگر اتحادی حکومت بن جائے اور معاشی پروگرام پیش کرے تو مارکیٹ تیزی سے ریکور بھی ہو سکتی ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس صورتحال کو بہتر بنانا سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے۔
دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ایک غیر یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود انتظامی کنڑول بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں ہزار 12 سو پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے اور اتنی بڑی مارکیٹ میں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ظفر پراچہ نے مزید کہا کہ اتحادی حکومت کا بننا اچھی علامت نہیں ہے اور اتحادی حکومت سے عالمی مالیاتی ادارے کچھ حد تک محتاط ہی رہتے ہیں۔ ’اتحادی حکومت ہوتی ہے تو کسی بھی وقت عدم اعتماد کی تحریک یا اعلٰی شخصیات کی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ ادارے قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں