لاہور (پی این آئی) پی ڈی ایم کے دور حکومت میں اسٹاک مارکیٹ میں 7 ہزار پوائنٹس کی کمی، پاکستان اسٹاک ایکسچینج 2 سال کی کم ترین سطح پر آگئی، رواں سال کے دوران سرمایہ کاروں کے مجموعی طور پر 1 ہزار ارب روپے ڈوب چکے۔ تفصیلات کے مطابق ملک کی غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورتحال نے پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو بدترین مندی والی مارکیٹ بنا دیا۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ رواں ہفتے کے دوران خوفناک مندی کا شکار رہی، 100 انڈیکس میں ہزاروں پوائنٹس کی کمی ہوئی، سرمایہ کاروں کو 2 کھرب سے زائد روپے ڈوب گئے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 39 ہزار 800 پوائنٹس کی سطح پر آ چکا، جو نومبر 2020 کے بعد کم ترین سطح ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اتحاد کی وفاقی حکومت آنے کے بعد سے تیزی سے بلدلتے حالات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ایسی ٹھیس پہنچائی کے ایک سال کے دوران صرف بیرونی سرمایا کاروں نے ایک ارب کروڑ90 ڈالر سے قریب مالیت کے حصص فروخت کر ڈالے۔جبکہ رواں برس کے دوران سرمایہ کاروں کے مجموعی طور پر 1 ہزار ارب روپے سے زائد ڈوب گئے۔ رواں سال اپریل کے وسط میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 46 ہزار 600 پوائنٹس کی سطح پر تھا، جس کے بعد مارکیٹ مسلسل مندی کی جانب گامزن ہے۔ یوں 8 ماہ کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج 7 ہزار پوائنٹس کی بدترین کمی کا شکار ہو چکی۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں ناصرف اسٹاک مارکیٹ بلکہ کرنسی مارکیٹ بھی بحران کا شکار ہے۔اپریل میں شہباز شریف کے وزارت عظمٰی سنبھالنے پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 182 روپے تھی، جو اب بڑھ کر 225 روپے سے زائد ہو چکی، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 234 روپے سے زائد ہے، تاہم معاشی ماہرین کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر روک رکھا ہے، مارکیٹ میں ڈالر کی اصل قیمت 250 روپے کے قریب ہے۔ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اتنا زیادہ فرق ہونے کی وجہ سے ہی بیرون ممالک مقیم پاکستانی بینکنگ چینلز کی بجائے حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم وطن بھجوا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کی ترسیلات زر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں