پاکستانی کرنسی اگلے 12ماہ میں کریش ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا گیا

اسلام آباد(پی این آئی)جاپانی ادارے نومارا نے خبردارکیا ہے کہ پاکستانی کرنسی اگلے 12 مہینوں میں کریش کر سکتی ہے ادارے کا کہنا ہے سو سے زیادہ پوائنٹس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو 64 فیصد تک کرنسی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان کے پوائنٹس 120 ہیں جو کہ خطرناک حد تک زیادہ ہیں ماضی میں امداد کی مد میں اربوں ڈالرز آنا معمول کی بات تھی لیکن اب یہ سہولتیں پاکستان کے لیے ختم ہوچکی ہے، جو کرنسی بحران پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہے.

 

 

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے رواں مالی سال میں سیلاب سے متعلق مالیاتی ضروریات واضح نہ ہونے اور اخراجات میں کمی کی وجہ سے درآمدی کنٹرول کے بعد آمدنی میں کمی کے درمیان زیر التوا 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے پر باضابطہ بات چیت کے شیڈول کے لیے کوششیں جاری ہیں. رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے پاکستانی کاروباری شخصیات اپنا سرمایہ بیرون ممالک منتقل کردیئے گئے ہیںماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے” انڈپینڈنٹ“ کو بتایا کہ جدید دور میں کرنسی بحرا ن کو تمام مالی مسائل کی ماں کہا جاتا ہے کرنسی بحران کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے پاس بیرونی ادائیگیاں کرنے کے لیے انٹرنیشنل کرنسی خصوصی طور پر ڈالرز موجود نہیں ہیں. انہوں نے کہا کہ پاکستان پچھلے کئی سالوں سے بیلنس آف پیمنٹ خسارے کا شکار ہے جسے پورا کرنے کے لیے پاکستان اب تک 135 ارب ڈالرز قرض لے چکا ہے اسے پورا کرنے کے لیے پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے اور آج بھی آئی ایم ایف کے سہارے کھڑا رہنے کی کوشش کر رہا ہے. فرخ سلیم نے کہا کہ کرنسی کے بحران سے مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے پیٹرولیم مصنوعات سمیت ضروریات زندگی کی اشیا کی قلت پیدا ہو سکتی ہے لیکن کرنسی کے بحران کو ڈیفالٹ سے جوڑنا مناسب نہیں ہے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں نے کبھی ملکوں کو ڈیفالٹ ڈکلیئر نہیں کیا ہے بلکہ قرض کی مدت بڑھا دی جاتی ہے۔

 

 

انہوں نے کہا کہ دسمبر میں ایک ارب ڈالر بانڈز کی ادائیگی ہو رہی ہے، اس کے بعد 2024 میں بانڈز کی ادائیگی ہونی ہے لہذا اگلے 16 مہینے تک پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن کرنسی کا بحران ختم کرنا ضروری ہے جس کے لیے سرکاری اداروں کی نجکاری بہتر حل ہے. ایک اندازے کے مطابق 190 سرکاری ادارے ہیں جن کی نجکاری کر کے ملک میں ڈالرز آ سکتے ہیں اور قرضوں کا 30 فیصد بوجھ کم کیا جا سکتا ہے اس معاملے پر سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے” انڈپینڈنٹ“ کو بتایا کہ کرنسی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اگر فوراً قابو نہ پایا گیا تو چند مہینوں میں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں پاکستانی کرنسی کریش کر سکتی ہے۔ صرف بانڈز کی ادائیگی کر دینا کافی نہیں تقریباً دو سے اڑھائی ارب ڈالرز کم از کم ہر ماہ چاہیے ہوں گے بانڈز ادائیگی کے بعد ڈالر ذخائر تقریباً سات ارب ڈالرز رہ جائیں گے جن میں سے تین ارب ڈالرز سعودی عرب کے ہیں جنہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا آئی ایم ایف مارچ سے پہلے قرض نہیں دے گی سوال یہ ہے کہ ان تین مہینوں کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے. سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے تقریباً 65 ارب ڈالرز درآمدات اور تقریباً 35 ارب ڈالرز قرض کی مد میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تقریباً 30 ارب ڈالرز کی بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں اور 31 ارب ڈالر برآمدات سے آتے ہیں یعنی تقریباً 39 ارب ڈالرز کا خسارہ ہے جو کرنسی بحران کی بڑی وجہ ہے۔

 

 

موجودہ کرنسی بحران کے شدید ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے فوری الیکشن کروا کر اس بحران کو کم کیا جا سکتا ہے کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو موجودہ وفاقی حکومت پر اعتماد نہیں ہے حکومت نے ڈالرز کی قلت کے باعث ڈیفنس سے متعلقہ سامان کی درآمدات کی ادائیگی بھی روک دی ہے. اس معاملے پر کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ انٹربینک ریٹ سے 30 روپے اوپر گرے مارکیٹ میں ڈالر مل رہا ہے اس کا منفی اثر پاکستان کے ڈالر ذخائر پر پڑا ہے ڈالرز بحران کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے کمپنیوں پر غیر ضروری دباؤ بھی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر نہیں دے رہے اور گرے مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں. سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے بتایا کہ ڈالر بحران سے کاروباری اورعام آدمی کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے کرنسی بحران کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہوتا ہے روپے کی بے قدری سے عام آدمی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اور کاروبار سکڑ رہا ہے اگر کرنسی بحران کم کرنے کے لیے انٹربینک میں ڈالر 260 روپے تک بڑھا دیا گیا تو بزنس کمیونٹی کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے. ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پاکستان ابھی تک مکمل طور پر کرنسی بحران کا شکار نہیں ہوا ہے اگر آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے بیرونی ادائیگیاں کرنے کے لیے بروقت قرض دیتے رہیں تو صورت حال قابو میں رہ سکتی ہے، لیکن حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کرنسی کا مکمل بحران آنے میں شاید زیادہ وقت نہیں ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں