اسلام آباد(پی این آئی)اگر آپ نئی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں اور آپ گاڑی کی رقم ادا کرنا بھی چاہیں تو پاکستان میں نئی گاڑی خریدنے کے لیے بکنگ کے بعد بھی آپ کو چھ سے آٹھ ماہ کا انتظار کرنا ہوگا۔ اس نظام کو گاڑیوں کی مارکیٹ میں ’اون منی‘ کلچر کہا جاتا ہے۔ اون منی کلچر میں مختلف سرمایہ کاروں نے گاڑیوں کی بکنگ کی ہوتی ہے اور اضافی رقم ادا کرنے پر ان سرمایہ کاروں کی جانب سے بک کی گئی گاڑی آپ کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ لیکن ہر سال کی طرح رواں برس بھی بجٹ سے قبل شورومز مالکان کی جانب سے گاڑی کی بکنگ کی صورت میں فوری گاڑی دینے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے بتایا کہ ’ہر سال حکومت بجٹ میں پرانی گاڑیوں کی درآمد سے متعلق فیصلے کرنے جا رہی ہوتی ہے، اس لیے ہر سال پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنی حکومت کو یہ تاثر دیتی ہیں کہ ہم فورا گاڑیاں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’آج بھی اون منی کے بغیر مارکیٹ میں گاڑی فروخت نہیں کی جارہی ہے۔ حکومت نے اون منی کلچر کو ختم کرنے کے لیے کچھ اقدامات تو کیے ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں۔‘’آج بھی مختلف کمپنیوں کی طرف سے نئی گاڑیاں متعارف کروائی گئی ہیں جن کی قیمت کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا لیکن ان کی بکنگ اس وقت جاری ہے۔‘ ایچ ایم شہزاد کے مطابق ’وفاقی حکومت نے بجٹ سے قبل گاڑیوں کی پالیسی پر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی تھی اور بجٹ پروپوزل مانگا گیا تھا۔ امید ہے کہ پرانی گاڑیوں اور نئی گاڑیوں پر ڈیوٹیز میں کمی آئے گی اور پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے گی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ڈیوٹی میں کس حد تک کمی کی جائے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا وزارت خزانہ کی جانب سے گاڑیاں درآمد کرنے کی پالیسی تبدیل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔‘ وفاقی پارلیمانی سیکریٹری عالیہ حمزہ ملک نے بتایا کہ ’ آنے والے بجٹ میں حکومت کی جانب آٹو انڈسٹری کے لیے خصوصی پیکج شامل کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’نہ صرف آٹو پارٹس پر ڈیوٹی کے حوالے سے اہم فیصلے لینے جارہے ہیں بلکہ ملک میں آٹو پارٹس کی مینوفیکچرنگ کے پلانٹس کو بھی رعایت دی جائے گی جس سے ملک میں نئے پلانٹس لگائے جائیں گے۔‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت 17 نئی کمپنیاں پاکستان میں آٹو مینوفیکچرنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں جبکہ سات پلانٹس نے کام شروع کر دیا ہے جس کے ذریعے ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ملک میں آئے گی۔ عالیہ حمزہ ملک کے مطابق پاکستان میں عالمی معیار کی گاڑیاں اسبمل نہیں کی جارہی ہیں جبکہ عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں، ’اس بجٹ میں آٹو پالیسی کے تحت نئی کمپنیاں پاکستان میں متعارف ہوں گی جس سے بہتر فیچر کے ساتھ سستی گاڑیاں فراہم ہوں گی۔‘گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندی سے متعلق عالیہ حمزہ ملک کا کہنا تھا کہ ’حکومت گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہی لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں انڈسٹریز کے دروازے بھی کھلیں جس سے روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں، صرف ضروری اشیا اور خام مال درآمد ہونے والی اشیا پر ٹیکس مراعات کی طرف جارہے ہیں۔‘پاکستان کے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے آٹو پالیسی کے بارے میں اپنے ایک ٹویٹ بیان میں کہا ہے کہ آج وزیر اعظم عمران خان آٹو پالیسی کی منظوری دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ’اس پالیسی کے تین اہداف ہیں۔ ایک گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی، دوسرا گاڑیوں کی مقامی سطح پر زیادہ سے زیادہ پیداوار اور تیسرا گاڑیوں کی ایکسپورٹ میں اضافہ۔‘ایچ ایم شہزاد کے مطابق ’حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی ڈیوٹی کم ہونے کے بعد گاڑیوں کی قیمتوں پر کچھ کمی آنے کا امکان تو موجود ہیں تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہونے کے بعد گاڑیوں کی قیمت کم ہونی چاہیے تھیں لیکن اس کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچا۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے پرانی گاڑیوں کی درآمد کرنے پر پابندی اٹھالی تو گاڑیوں کی قیمتیں کافی حد تک کم ہوں گی اور امید ہے کہ اس بجٹ میں پانچ سال پرانی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ جس میں خصوصی طور پر 800 سی سی اور 650 سی سی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ دوسری جانب گاڑیوں کی آن لائن فروخت کرنے والی پاکستان کی سب سے بڑی ویب سائٹ پاک وہیلز کے بانی و سربراہ سنیل سرفراز منجھ کے خیال میں ’ہر سال بجٹ سے قبل مئی اور جون میں گاڑیوں کی فروخت میں واضح کمی آتی ہے جس کی وجہ سے شورومز مالکان فوراً گاڑی مالکان کے حوالے کرنے سے متعلق مہم چلاتے ہیں لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد دوبارہ سے صورتحال جوں کی توں ہی رہتی ہے۔‘ ان کے خیال میں ہر بار یہ خبر آتی ہے کہ گاڑی سستی ہونے والی ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، ’آج بھی اگر کوئی گاڑی خریدنا چاہیں تو اون منی کے بغیر گاڑی نہیں ملنی۔‘ سنیل سرفراز گاڑیوں کی قیمتیں کم کرنے والی معلومات کو افواہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بظاہر حکومت نے یقین دہانی تو کرائی تو ہے لیکن ان پر عملدآمد نہیں کیا جاتا۔’ڈیوٹیز کم کرنے سے متعلق بھی بات کی جاتی ہے، گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندی اٹھانے سے متعلق بھی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں