اسلام آباد(پی این آئی) شہباز رانانے کہاکہ پاکستان جو اقدامات کرنے جا رہاہے کیا اسے خودکرنے چاہیے تھے یا اس کیلیے آئی ایم ایف کی چھتری ہی ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ وہ اقدامات ہیں جوکسی بھی نئی حکومت کوآتے ہی کرلینے چاہئیں، ٹیکس کی اصلاحات پاکستان کابہت پرانامسئلہ ہے کوئی بھی حکومت اسے
کرنے کیلیے تیارنہیںہے، جوبھی سیاسی حکومت آتی ہے وہ ٹیکس ایمنسٹی دیکرنکل جاتی ہے، پی ٹی آئی حکومت جواسے کرپٹ پریکٹس کہتی تھی اس نے بھی دواسکیمیں دیں۔شہباز رانانے کہاکہ پاورسیکٹرکے بھی یہی مسائل ہیں، چوری بڑھتی گئی پاورکا اسٹرکچر تباہ ہوگیا کسی نے اس پرتوجہ نہیں دی۔ جوبھی سیاسی حکومت آئی اس نے اپناووٹ بینک بچانے کیلیے آسان رستہ اپنایاجبکہ ووٹ بینک بھی نہ بچا اور پاکستان کی معیشت بھی تباہ ہوگئی، اس وقت ملک میںجومختلف بزنس گروپس اورلوگوں کوٹیکس مراعات دی گئی ہیں اس کا تخمینہ ایف بی آرنے تیس جون 2020کولگایا تھا اس کی لاگت1050ارب روپے ہے جو ایم ایل ون ریلوے ٹریک منصوبے کی لاگت سے بھی زیادہ ہے، وہ رقم بڑھ کر11384ارب ہوگئی ہے جو آپ کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے جن مین سے حکومت140ارب ودڈراکرنے جارہی ہے لیکن اصل کڑوی گولی مئی جون میں آئے گی جب چھ سے سات سوارب کے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مفادپرست طبقہ مراعات لے جاتاہے۔ کامران یوسف نے کہاکہ70 کے قریب ٹیکس رعایتیںحکومت واپس لینے لگی ہے، ہائیبڑدگاڑیاں بھی شایدمہنگی ہوجائیں، آئی ایم ایف کی ساری پالیسیاںغلط نہیںہیں بلکہ بعض معاملات میںوہ آپ کے معاشی نظام کی زبردست اصلاح بھی کرتاہے۔معروف بزنس مین عارف حبیب نے کہاکہ کیپٹل مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ جہاں بہت سے گروپ رجسٹرڈ ہیں اس لحاظ سے یہ بہت زیادہ ایڈورس نہیں ہے انھوں نے پاورسیکٹراوردیگر شعبوں سے ٹیکس مراعات واپس لی ہیں، کچھ ودہولڈنگ کمپنیز سے بھی مراعات واپس لی جا نے لگی ہیں،ریونیوزیادہ کرنے سے حکومت کوکوئی بہت بڑافائدہ نہیںہوگالیکن آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلیے اسے قبول کرلیاگیاہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں